اقلیتوں سے متعلق اسکیموں کے نفاذ میں مجرمانہ کوتاہی

اور اگر ان کی اس ہمت اور بے باکی کے بعد مرکزی وزارت اقلیتی امور سر گرم ہو جائے اور پالیسیوں اور پروگراموں کے نفاذ کو یقینی بنائے تو ملک میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کی تقدیر بدل سکتی ہے ۔ ڈاکٹر فہیم بیگ نے دہلی کے جعفر آباد علاقہ میں اقلیتی امور سے متعلق اسکیموں کے نفاذ کی اصل صورت حال حق اطلاعات قانو ن (RTI) کے تحت طلب کی تھیں جس سے انہیں پتہ چلا کہ اس علاقہ میں کوئی کام ہواہی نہیں۔ اگر مرکز کی ناک کے نتیجے جہاں ریاستی حکومت بھی کانگریس کی ہی تھی وہاں اسکیموں کے نفاذ کے معاملہ میں یہ بد ترین صورت حال ہے تو اندازہ کیا جاسکتاہے کہ ملک گیر سطح پر اصل صورت حال کیا ہوگی۔
جہاں تک اقلیتوں سے متعلق اسکیموں کی بات ہے اس حقیقت کا اعتراف نہ کرنا بدترین بے ایمانی ہوگی کہ منموہن حکومت نے شاندار اسکیمیں ہی نہیں پیش کیں بلکہ ان کے لئے کھلے ہاتھوں سے رقم بھی دی یہی نہیں تمام اسکیموں کو قومی ترقیاتی کونسل سے منظور کراکے انہیں 12ویں پانچ سالہ منصوبہ کا حصہ بنادینا ایسا کارنامہ ہے جو اس سے پہلے کسی حکومت نے سوچا بھی نہیں تھا۔ اسکیمیں اور قانون بنانا نیز ان کے لئے سرمایہ فراہم کرنا مرکزی حکومت کا کام ہے اور ان کو نافذ کرنا ریاستی حکومتوں کا اس سے قبل ایسے بہت سے واقعات سامنے آئے ہیں جب ریاستی حکومتوں کے محض اس وجہ سے ان اسکیموں کے نفاذ میں دلچسپی نہیں دکھائی کہ اس کا سیاسی فائدہ کانگریس کو ملے گا کئی ریاستوں کو بھیجا جانے والا بجٹ خرچ ہی نہیں ہوا گذشتہ سال عام بجٹ پیش کرتے ہوئے وزیر مالیات پی چدمبرم نے کہا بھی تھا کہ بہت سی ریاستوں سے رقم واپس آگئی ہے عموماً ہوتا یہ ہے کہ رقم خرچ نہ ہونے پر ضبط کرلی جاتی ہے لیکن چدمبرم صاحب نے وزارت اقلیتی امور کے سلسلہ میں اس روش سے الگ ہٹ کر فیصلہ کیا اور نہ صرف باقی رقم ضبط نہیں کی بلکہ اس میں خاطر خواہ اضافہ بھی کیا ۔ اسکیموں کا فائدہ اقلیتوں تک پہنچانے کو یقینی بنانے کے لئے نہ صرف ان اضلاع کی شناخت کی گئی بلکہ اس سے بھی نیچے جاکر ان ترقیاتی بلاکوں کی بھی شناخت کی گئی جہاں اقلیتوں کی آبادی25-30 فیصد ہے اور ان سب کے لئے اسی حساب سے اسکیمیں منظور کی گئیں حالانکہ یہ کام ابھی دو ڈیڑھ سال پہلے ہی کیا گیاہے اور ہر جگہ تمام اسکیمیں اتنے مختصر وقفہ میں نافذ نہیں ہوسکتیں لیکن نفاذ کے معاملہ میں مرکزی سطح سے لے کر ضلعی سطح تک لا پروائی اور تفریق برتی جارہی ہے اس تلخ حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ۔ کہیں سیاسی ریاضی اور کہیں فرقہ وارانہ ذہنیت اور ان سب سے بڑھ کر خود اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کی بے حسی اس بد ترین صورت حال کے لئے ذمہ دار ہے ۔ ڈاکٹر فہیم بیگ جیسے کتنے لوگ ہیں جنہوں نے حق اطلاعات قانون کا استعمال کرکے ضروری معلومات یکجا کی ہوں اور پھر ان اسکیموں کے نفاذ کے لئے اعلیٰ ترین سطح تک آواز اٹھائی ہو بہت کرلیا تو اردو کے اخبارات میں ایک سر سری مضمون لکھ دیا حکومت اور حکمراں جماعت کو کھری کھوٹی سنادی اپنی سیاسی مصلحت کے مطابق کسی سیاسی پارٹی کی حمایت کردی بقیہ کی بخیہ ادھیڑ دی اور سمجھ لیا کہ ہم مجاہد ملت ہیں ہم نے قوم کا قرض آتار دیا۔ یہ اجتماعی بے حسی ملت کی سب سے بڑی دشمن ہے ۔ مسلمانوں میں سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں ڈاکٹر فہیم بیگ کے بیدار ہونے کی ضرورت ہے ۔ منموہن حکومت نے حق اطلاعات قانون کی شکل میں ایک ایسا موثر اسلحہ اور تیر بہ ہدف نسخہ عام آدمی کے ہاتھوں میں دے دیاہے جس سے وہ بڑے سے بڑا کام کراسکتاہے ان کالموں میں اس سے قبل بھی کئی بار لکھا جاچکاہے کہ اقلیتوں سے متعلق اسکیموں کے نفاذ کے سلسلہ میں ہر ضلع اور شہر میں غیر سر کاری تنظیمیں(NGOs) کی تشکیل کی جانی چاہئیں جو حق اطلاعات قانون سمیت متعدد طریقوں کا استعمال کرکے ان اسکیموں کے موثر اور ایماندارانہ نفاذ کو یقینی بنائیں ۔ پرانی کہاوت ہے کہ حق اسی کو ملتاہے جو چھین لینے کی طاقت رکھتاہے محض گریہ وزاری اور سینہ کوبی سے کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔
ڈاکٹر فہیم بیگ نے وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ صدر کانگریس سونیا گاندھی اور مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور رحمان خان صاحب کے سامنے اپنی آواز ہی نہیں بلند کی بلکہ انہیں آئینہ بھی دکھادیا ۔ معاملہ صرف ڈاکٹر فہیم بیگ کے علاقہ جعفر آباد میں اسکیموں کے نفاذ کا نہیں ہے یہ معاملہ پورے ملک میں ان اسکیموں کے نفاذ کی حقیقت اجاگر کرتا ہے ۔ کیا ان لیڈروں کی آنکھیں کھلیں یہ ایک بڑا سوال ہے ۔ کانگریس کو سمجھنا ہوگا کہ2004 میں اس کی ڈوبتی ناؤ مسلمانوں نے بچائی تھی اور 2014 میں اتنے بدترین سیاسی حالات میں بھی کانگریس کی ناک جڑ سے کٹنے سے اگر کوئی بچا سکتاہے تو وہ اس ملک کے15فیصد مسلم ووٹر ہیں اگر ان کے معاملہ میں کانگریس کی مرکزی اور ریاستی حکومتیں لا پر وائی برت رہی ہیں تو صاف ظاہر ہے کہ کانگریس سیاسی خودکشی کرنا چاہتی ہے حالانکہ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے سچر کمیٹی کے ذریعہ پہلے اصل صورت حال کا سائنسی اور حقیقت پسندانہ جائزہ کروایا پھر تعلیم روز گار رہائش وغیرہ کے مسئلہ پر مخلصانہ پالیسی بنائی ان سب باتوں کا اعتراف کرنا چاہئے لیکن وزارت اقلیتی امور نے ان کے نفاذ میں وہ تیزی اور شدت پسندی کیوں نہیں دکھائی جس کے حالات متقاضی ہیں کیا اس وزارت سے وابستہ ارباب حل و عقد کو نہیں معلوم کہ اقلیتوں سے متعلق اسکیموں کے نفاذ میں متصعب ذہنیت کیا کیا گل کھلا تی ہے ان سب مسائل پر قابو پانے کے ضروری اقدام کیوں نہیں کئے گئے اس کے علاوہ کل ہند کانگریس کمیٹی کا اقلیتی شعبہ بھی ہے اس نے اسکیموں کو عوام تک پہنچانے اور ان کے نفاذ کی صورت حال جان کر متعلقہ شخصیات بشمول صدر کانگریس وزیر اعظم اور وزیر اقلیتی امور تک کیوں نہیں پہنچائی صاف ظاہر ہے کہ حکومت رہی ہو یا پارٹی ہر جگہ مجرمانہ تساہلی برتی گئی جس کا خمیازہ پارلیمانی الیکشن میں پارٹی کو بھگتنا پڑسکتاہے۔
صرف اقلیتی امور سے متعلق اسکیموں کے نفاذ میں ہی نہیں دیگر معاملات میں بھی یوپی اے حکومت اور کانگریس پارٹی عوام تک اپنی باتیں پہنچانے میں بری طرح ناکام رہی ہے جس کی زبردست سیاسی قیمت اسے ادا کرنی پڑرہی ہے۔ اطلاعات کے اس دور میں جب مودی زیرو سے ہیرو بن گیا کانگریس نے خود اپنی سیاسی قبر کیوں کھودی یہ سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے۔ بہر حال ابھی جو وقت بچاہے اس میں وزارت اقلیتی امور کو چاہئے کہ وہ اسکیموں اور ان کے نفاذ نیز زمینی صورت حال سے عوام کو آگاہ کرنے کے لئے کم از کم ایک قرطاس ابیض ہی جاری کردے ۔ نیز مسلم اکابرین اہل رائے اور اردو صحافیوں سے رابطہ تیز کرکے اپنی تھوڑی بہت تو عزت بچالے ۔ تین مہینوں میں تو سیاسی بازی پلٹی جاسکتی ہے بشرطیکہ کھلاڑی ہوشیار اور تیز طرار ہو۔

«
»

ہندوستان میں کاسہ بدست بچوں کی بہتات

جنیوا ٹو کی کامیابی کے امکانات کم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے