اقوام متحدہ:فلسطین کی رکنیت کی قرارداداور امریکہ

ایک معتبر عالمی سروے کے مطابق دنیا کے بیس ممالک کے عوام فلسطینیوں کیلئے ایک علیحدہ ریاست کے قیام کی غرض سے اقوام متحدہ میں قرارداد منظور کرانے کے حق میں ہیں۔ گلوب سکین کے اس سروے میں انیس ملکوں کے بیس ہزار 4سو چھیالیس شہریوں نے حصہ لیا جہاں عوام کی اکثریت نے فلسطین کو اک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کے حق میں اپنی رائے کا دوٹوک اظہار کیا۔ جن ممالک میں اس قرارداد کے بارے میں مخالفت زیادہ ہے ان میں امریکہ نمایاں ہے جہاں کے عوام 45فیصد حمایت میں اور 36فیصد مخالفت میں ہیں۔ فرانسیسی وزیر خارجہ ایلن جوپے کے اپنے ملک میں 54فیصد افراد آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے حامی ہیں جبکہ محض 20 فیصد مخالف ہیں۔ حال ہی میں صدر اوباما نے اپنی تقریر میں اقوام متحدہ کی جانب سے فلسطین کو تسلیم کرنے کی مخالفت کی ہے۔ انہوں نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ اگر سیکورٹی کونسل میں فلسطین کو اقوام متحدہ کا رکن بنانے کی قرارداد پیش ہوگی تو امریکہ اس قرارداد کو ویٹو کے ذریعہ ناکام بنادے گا۔ امریکہ کا یہ ویٹو اسرائیل کے وجود کو بچانے کیلئے 43 واں ویٹو ہوگا کہ اس سے قبل ہر امریکی صدر نے اسرائیل کے خلاف آنے والی قراردادوں کو 42 بار ویٹو کرکے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا ہے اور ایسا کیوں نہ ہو کہ صدر بارک اوباما پہلے ہی یہ یقین دہانی کروا چکے ہیں کہ غزہ سے لیکر تہران تک اسرائیل کا تحفظ کریں گے۔ اوباما چاہتے ہیں کہ ایران کو ایٹمی طاقت نہ بننے دیا جائے اور حماس کے پرکاٹ دیئے جائیں اور خطے میں اسرائیلی مفاد کو مدنظر رکھا جائے۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اگر ایران نے ایٹم بم بنالیا تو تل ابیب یونیورسٹی کے ایک سروے کے مطابق 26فیصد یہودی اسرائیل چھوڑ جائیں گے جبکہ 85فیصد اسرائیلیوں کو یقین ہے کہ ایران ایٹم بنالے گا۔
فلسطینی صدر محمود عباس کی طرف سے اقوام متحدہ میں فلسطین کی رکنیت کے لئے پیش کی گئی قرارداد کی وجہ سے نہ صرف امریکہ اور اس کے اتحادیوں میں کھلبلی سی مچ گئی ہے بلکہ اسرائیلی وزیراعظم بنجین نیتن یاہو بھی ہوش کھو بیٹھے ہیں۔ انہوں نے جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطینوں کو سمجھنا چاہئے کہ اب وقت آگیا ہے کہ وہ یہودی ریاست کو تسلیم کرلیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ دنیا کو خبردار کرنا چاہتے ہیں کہ قراردادوں سے امن قائم نہیں ہوگا۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ امن مذاکرات کا سلسلہ فوری شروع کیا جائے، دوسری طرف فلسطین کے وزیر خارجہ ریاض المالکی نے اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات شروع کرنے کی تازہ کوششوں کو نامکمل اور ادھورا قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں اسرائیلی بستیوں کی تعمیر روکنے کی اپیل شامل نہیں۔
انہوں نے اسرائیل کو ایک قابض قوت قرار دیتے ہوئے کہا کہ مغربی کنارے اور مشرقی یوروشلم میں فلسطینی علاقوں پر اس کا قبضہ کسی علاقے کو کالونی کے طور پر اپنے کنٹرول میں رکھنے کی پالیسی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اقوام متحدہ میں فلسطین کی رکنیت کی درخواست پر اعتراض کرنے والے ملکوں کے حیلے بہانے بالکل لغو بے بنیاد اور مکڑی کے جالیکی مانند ہیں کہ وہ اس درخواست کو مسترد کرتے ہوئے بات چیت کی دعوت دے رہے ہیں جبکہ نہ اس کا ٹائم ٹیبل مقرر کیا گیا ہے نہ اس کی مدت مقرر کی گئی ہے اور نہ ہی اس کا قانونی دائرہ حدود متعین کیا گیا ہے جس کے دائرے میں یہ مذاکرات کرانا چاہتے ہیں۔ 1991 میں میڈریڈ (اسپین) میں منعقد امن کانفرنس کے بعد سے فلسطینی نہایت تلخ تجربات سے گزرتے رہے ہیں اور ان 20 برسوں سے بدترین مشکل حالات اور ظلم و بربریت کو جھیلتے رہے ہیں ان دو دہائیوں کے دوران جو نسل پیدا ہوئی ہے اس نے صرف مذاکرات ، گفتگو اور بات چیت کے دور کا مشاہدہ کیا ہے اور یہ جانا ہے کہ ایک طرف فلسطینی فریق کو مذاکرات اور خالی خولی بات چیت میں الجھا کر رکھا گیا ہے اور دوسری طرف ان کی زرخیز زمینوں کو تیزی سے ہڑپ کیا جارہا ہے، بستیاں بسائی جا رہی ہیں جن میں غیر ممالک سے لا لا کر یہودیوں کو بسایا جارہا ہے۔جون 2009 کو قاہرہ یونیورسٹی میں اوباما نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ اسرائیل کی 2003 کے روڈ میپ کے پہلے مرحلے کی شرائط کی پیروی کرنے پر آمادہ کرے گا۔ اس روڈمیپ کی پہلی شرط کے مطابق اسرائیل کو مزید نئی بستیوں کے قیام کا سلسلہ منقطع کردینا چاہئے۔ فلسطینیوں اور عرب ممالک نے اس شرط کو اس حقیقت کے باوجود قبول کر لیا کہ اسرائیل نے اس روڈ میپ میں ایسے مزید 14ریزرویشن کا اضافہ کیا ہے جن سے اسے نئی بستیوں کی تعمیر کا اختیار حاصل ہوگا۔ یہ روڈ میپ فلسطینیوں کی قسمت کا وہ باب ہے جس میں ان کے لئے اپنی تہذیب و تمدن، سماج و معاشرہ ، معیشت اور سیاست سے دور رہنا ہی لکھا ہے۔
اب پھر سے امریکہ اور مغربی طاقتیں سامنے آکر کہہ رہی ہیں کہ مذاکرات کی میز پر واپس آیا جائے۔ کسی ٹائم ٹیبل کے بغیر اسرائیل سے بات چیت کی جائے جیسے یہ مسئلہ نہ ہو، دل بہلانے کا ذریعہ ہو، تفریح طبع ہو، مگر شاید وہ یہ بھول رہے ہیں کہ اب مظالم اور بے بسی کی انتہا ہوچکی ہے فلسطینی اپنا ملک چاہتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ جب فلسطینی اتھارٹی نے اقوام متحدہ میں خصوصی نشست کے بجائے مکمل رکنیت کیلئے سیکورٹی کونسل کا دروازہ کھٹکھٹایا تو سارے فلسطینی، عرب اور دنیا کی 54 فیصد آبادی نے ان کی تائید میں ہاتھ کھڑے کردیئے۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اقوام متحدہ کی رکنیت مل جانے کے باوجود فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کا قبضہ ختم نہیں ہوگا مگر اس سے فلسطینیوں کی اخلاقی فتح اور ان کے ہاتھ مضبوط ہوں گے۔ اس وقت فلسطینیوں کو امریکہ کی طرف سے جو سالانہ امداد مل رہی ہے وہ 500 ملین ڈالر ہے۔ امریکہ نے کہا ہے کہ اگر فلسطین اتھارٹی نے اقوام متحدہ میں آزاد فلسطین کی قرارداد پیش کی تو وہ اس قرارداد کو ویٹو کردے گا اور فلسطین کی امداد بند کردے گا۔میں نے کہیں پڑھا ہے کہ تاریخ فاتح کی فتوحات لکھتی ہے کہ اس کے دسترخوان پر پڑے انڈے ، مکھن ، توس ، جام جیلی یا پراٹھے نہیں گنتی۔
چلو یہ مانا کہ ادنی سا اک چراغ ہوں میں
مگر ہواؤں کو الجھن میں ڈال رکھا ہے!

«
»

ہندوستان میں کاسہ بدست بچوں کی بہتات

جنیوا ٹو کی کامیابی کے امکانات کم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے