اور اب آزادی صحافت پر شب خون؛

سیکولرازم کی گرہیں وقت کے ساتھ ساتھ کھلتی چلی جارہی ہیں اورمغربی تہذیب کاکذب و نفاق دنیاپر طشت از بام ہواجارہا ہے۔یہی مغرب جسے اپنے مفادات کے لیے اگرجمہوریت کی ضرورت ہو تو جمہوری طبقات اور سیاسی جماعتوں کواپنے سینے سے سیراب کرتاہے اورجب جمہوریت کے نتیجے میں مغربی ممالک کے مفادات پر زک پڑتی نظر آئے تواپنے پستانوں سے بہتی ہوئی دھاریں فوجی آمروں اور خاندانی حکمرانوں کے منہ میں ڈال دیتاہے اورایسے موقعوں پرحکومتوں اور خفیہ اداروں سمیت مغربی ذرائع ابلاغ،سیکولردانش وراور انسانی حقوق کی راگ الاپتی دنیابھر کی ٹھیکیدار تنظیمیں بھی ثم بکم عمی(اندھے گونگے بہرے)کی عملی تصویر بن جاتی ہیں اور اقوام متحدہ کاتو کیاہی کہنا۔مصرکے تازہ حالات مغرب کے اس انسانیت دشمن رویے کی عملی مثال ہیں کہ بظاہر منافقانہ سکوت اور پس پردہ مجرمانہ پشت پناہی سے مصری عوام کا گلاگھونٹنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں تاکہ اسرائیل جیسی ناجائز اور دہشت گرد اورقریب المرگ ریاست کو حتی الامکان حد تک مصنوعی تنفس فراہم کیاجاسکے۔
مصرکے سیکولرفوجی حکمرانوں نے چار غیرملکیوں سمیت بیس صحافیوں پر ناروامقدمات قائم کیے ہیں اور ان کی پکڑ دھکڑ کاسلسلہ جاری ہے۔غیرملکی صحافیوں میں دو برطانوی ہیں،ایک ولندیزی(ڈچ)اور ایک آسٹریلیاکا باشندہ ہے جبکہ باقی سولہ کس افراد مصرکے شہری ہیں۔عوامی جمہوری اقدارکوپامال کرنی والی سیکولرحکومت نے ان صحافیوں پر الزامات عائد کیے ہیں کہ ان کا تعلق ’’دہشت گردوں ‘‘سے ہے ،انہوں قومی یکجہتی کو نقصان پہنچایاہے اورمعاشرتی امن کو خراب کرنے کی کوشش کی ہے۔جبکہ غیرملکی صحافیوں پر الزامات ہیں کہ انہوں نے مصریوں کو معلومات ،ضروری آلات اور رقوم فراہم کی ہیں تاکہ دنیابھرکے سامنے ثابت کرسکیں کہ مصر کوخانہ جنگی کی طرف تیزی سے دھکیلاجارہاہے۔ان بیس صحافیوں میں سے آٹھ کو اب تک گرفتارکر کے توقیدوبندمیں دھکیل دیا گیاہے جبکہ باقی بارہ کی تلاش جاری ہے،ان آٹھ گرفتارمیں سے ایک نے قاہرہ کی عدالت میں دعوی بھی دائر کیاہے کہ اسے بغیر کوئی وجہ بتائے اور کسی قانونی کاروائی کے بغیر گرفتار کیاگیاہے۔ٍان صحافیوں میں سے اکثریت کاتعلق قطرکے الجزیرہ ٹیلی ویژن سے ہے اور الجزیرہ والوں کاکہناہے ان کا رابطہ صرف گرفتارشدگان سے ہی ہے اور ان کے بارے میں بھی مقتدر حلقوں نے کوئی خاطر خواہ قانونی جواز فراہم نہیں کیااور نہ ہی ان کی گرفتاری کا کوئی قانونی وآئنی موادمہیاکیاگیاہے۔الجزیرہ ٹیلی ویژن نے اس واقعہ کی وضاحت کرتے ہوئے کہاہے کہ ان کے نمائندگا ن اپنی معمول کی پیشہ ورانہ مصروفیات میں مشغول تھے کہ انہیں دھرلیاگیااور یہ خبر خود الجزیرہ کے لیے بھی اتفاقی اور حیران کن تھی۔صحافیوں پر مقدمات،ان کی گرفتاری اور ان کے ساتھ نارواسلوک پر بی بی سی،سکائی نیوزاور ڈیلی ٹیلیگراف سمیت متعدد عالمی صحافتی اداروں نے مصری حکومت سے احتجاج کیاہے اور انہیں رہاکرنے کا مطالبہ بھی کیاہے۔
الزامات کا تمام تر محور ایک ہی امرہے کہ ان صحافیوں کا تعلق ’’دہشت گرد ‘‘تنظیم سے ہے۔’’دہشت گرد‘‘ایک ایسی اصطلاح ہے کہ جو گزشتہ کئی سالوں سے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے لیکن اس کی وضاحت نہیں کی جا سکی۔یہ بات یقین سے نہیں بلکہ دعوے سے کہی جا سکتی ہے کہ جس دن ’’دہشت گردی‘‘ کی وضاحت کر دی گئی اسی دن ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف جنگ کرنے والے خود دہشت گرد قرار پا جائیں گے۔لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ ایک اصطلاح ہنوزنشنہ وضاحت ہے اور اسی اصطلاح کو استعمال کرتے ہوئے لاکھوں انسانوں کو موت کی اندھیری وادی میں دھکیل دیاگیاہے۔کیاتاریخ نے یہ دن بھی دیکھنے تھے کہ اپنے وطن میں اپنی عزت و آبرواور اپنی دین و ملت کا دفاع کرنے والے ’’دہشت گرد ‘‘قرار پائیں گے اور ہزاروں میل دور دوسروں کے ممالک میں آبادیوں،باراتوں اور جنازوں پر بمباری کرتی ہوئی افواج’’ امن پسند‘‘قرار دی جائیں گی؟؟کم و بیش یہی رویہ مصر کے سیکولرفوجی حکمرانوں کا بھی ہے کہ عوامی نمائندگی کی حامل برسراقتدارجماعت ‘‘اخوان المسلمون‘‘کو حق اقتدار سے محروم کرکے تواسے ’’دہشت گرد‘‘قرار دے دیاگیااور بدمعاشی کے بل بوتے پر غاصب حکمران اپنی قوم کے خیرخواہ قرارپا گئے۔اب ظاہر ہے سچ بولنے کی سزاتو ملے گی ناکیونکہ سیکولزازم میں سچ کی تو کوئی گنجائش نہیں۔پس یہی وجوہات ہیں صحافیوں کے خلاف مقدمات بنانے کی تاکہ ان صحافیوں کے ذریعے باقی ماندہ اہل نقدو قلم کو بھی کان ہوجائیں کہ گر سچ بولا تو یہی انجام ہوگا۔
حقیقت یہ ہے کہ مصر کی عوام نے ایک عرصے کے بعداسلامی جمہوریت کا حسین چہرہ دیکھاتھااور پارلیمان سے قوم کو ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکے آنے شروع ہی ہوئے تھے کہ سیکولر آمریت کی بادسموم نے ایک بار پھر قوم کو اپنے مکروہ جال میں آن دبوچا،اب باردیگر پھر صدیوں پہلے کی فرعونیت مصر پر مسلط کر دی گئی ہے۔لیکن اس سب کے باوجود مصر کی عوام میں ایک نہ ختم ہونے والی بے چینی ہے اور اخوان المسلمون کی منتخب اور عوام دوست حکومت کے خاتمے کے بعد آج تک وہاں کے حالات سنبھل نہیں سکے۔نوبت یہاں تک پہنچی ہے عوام کے بپھرے ہوئے طوفان کو قابوکرنے کے لیے پولیس کی صلاحیت ختم ہو چکی ہے اور دشمنوں سے بدترین شکست کھانے والی سیکولر فوج آج گلی محلوں اورشہروں کی بڑی بڑی شاہراہوں اورچوراہوں پر اپنے ہی شہریوں کے سامنے صف آراہے اورآئے روز فوجی گولیوں کی بوچھاڑ میں مرنے والے معصوم خواتین اور مرد حضرات کی تفاصیل منظر عام پر آتی ہیں اور کہیں تو اس طرح کے مناظر بھی دکھائے گئے کہ فوجیوں کی بکتر بندگاڑیوں نے سڑکوں پر نہتے مظاہرین کوعین س وقت کچل ڈالاجب کہ وہ حالت نمازمیں رب تعالی کے حضورسجدہ ریز تھے۔یہ ان سیکولرلوگوں کاکردار ہے جو صحافیوں پر ’’دہشت گردوں‘‘سے تعلقات کے مقدمات بنارہے ہیں۔اس وقت تک مصر میں مظاہروں پر پابندی ہے،آزادی رائے معدوم ہے،بے شمار افراد گرفتار ہوچکے ہیں جن میں اخوان المسلمون کی صف اول کی سیاسی و علمی قیادت بھی شامل ہے،جیلوں میں ان پر کیابیت رہی ہے کچھ معلوم نہیں،نوجوانوں کی ایک کثیر تعداداس ظلم کے خلاف آج بھی سڑکوں پر ڈیرے ڈالے بیٹھی ہے اور اپنی ہی فوج سے خوب پٹائی کھاتی ہے لیکن اپنی مرضی کے خلاف ایک تھپڑپر شور مچانے والے امریکہ اور یورپ اپنی منشا کے عین مطابق اس قتل و غارتگری اور جبروتشدد پر بالکل خاموش ہیں۔موجودہ سیکولر فوجی حکمرانوں نے گزشتہ حکومت کے خلاف ریفرنڈم بھی کروا کے دیکھ لیا،معزول صدرمحمد مرسی58%سے زیادہ رائے دہندگان کی حمایت سے برسراقتدارآئے تھے جبکہ 14اور15جنوری 2014کے ریفرنڈم میں کل 38%عوام نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ،فوجی بندوق کے زیر سایہ ریفرنڈم جس طرح منعقدکرایا جاتاہے اور اس کاجو مصنوعی اور تیارشدہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے اس سے وطن عزیز کے عوام بھی بخوبی آگاہ ہیں گویا مصری عوام کی اکثریت نے ریفرنڈم میں حصہ نہ لے کر سیکولر فکر کو یکسرمسترد کر دیا ہے اور فوجی حکمرانوں اپنا راہنما تسلیم نہیں کیا۔
حقیقت یہ ہے ’’اخوان المسلمین‘‘آج بھی مصری عوام کے دلوں میں بستی ہے اور محمد مرسی آج بھی مصر کے عوام کی ہر دلعزیزشخصیت ہیں۔استاد حسن البناشہیدؒ اور مفسر قرآن سید قطب شہیدؒ کا قافلہ راہ حق اپنی منزل سے قریب تر ہوا چاہتاہے ۔خارجی بیساکھیوں کے سہارے عوام کی گردنوں پر مسلط استعماری گماشتے اپنے وجود کے آخری ایام کا شمار کررہے ہیں اور تاریخ کے صحیفے بہت جلد انہیں ذلت و رسوائی کے کفن میں لپیٹ کرہمیشہ کے لیے میرجعفراورمیرصادق کے جوار میں دفن کر دیں گے۔ صرف مصر نہیں بلکہ عالم عرب سمیت کل امت مسلمہ میں احیائے اسلام کی ایک لہر چل نکلی ہے،افریقہ کی پسماندہ سرزمین سے ایشیائے بعید تک امت مسلمہ بڑی تیزی سے غلامی کے جامے اتارنے میں مصروف ہے ۔اہل ایمان کی سیسہ پلائی ہوئی صف بستہ اقوام صرف ایک صالح اور جرات مند قیادت کی منتظر ہیں۔ خلافت عثمانیہ کو جس سیکولرازم نے جڑ سے اکھاڑنے کا دعوی کیاتھا آج پھر وہی سرزمین احیائے اسلام کی نویدسنا رہی ہے۔اﷲتعالی کا سچا وعدہ پوراہونے کو ہے اور خلافت علی منہاج نبوت کاقیام عالم انسانیت کی چوکھٹ پر دستک دے رہا ہے پس غلامی کی بچی کھچی منحوسیات کے طلسم بس اب ٹوٹے کہ ٹوٹے اور آنے والاوقت انسانیت کی راحت اور آسودگی کی نوید صبح کا امین ہے،انشاء اﷲتعالی۔

«
»

ہندوستان میں کاسہ بدست بچوں کی بہتات

جنیوا ٹو کی کامیابی کے امکانات کم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے