امریکی ایرانی مشترکہ دردِدل

بالخصوص جب سے ایرانی حکومت نے پرامن ایٹمی ٹیکنالوجی میں خودکفالت کیلئے کام شروع کیاہے لیکن اب اچانک امریکااورایران کے درمیان معاہدہ طے پاگیاہے جسے ایران کے پی (۱+ ۵)معاہدہ کانام دیاجارہاہے یعنی ایران کامعاہدہ صرف امریکاسے نہیں بلکہ امریکاسمیت ۵ویٹوپاورزاورجرمنی کے ساتھ ہے۔اس معاہدہ کی روسے جس کی مدت چھ ماہ ہے اورچھ ماہ بعدایک نیااورجامع معاہدہ سامنے آنے کی توقع ہے۔ایران کوپابندکیاگیاہے کہ وہ ۵222سے زائدیورینیم افزودہ نہیں کرے گاجس کے بدلے میں اس کے خلاف نئی پابندیاں نہیں لگیں گی اورسات ارب ڈالر کے ریلیف کے ساتھ ساتھ آٹھ ارب ڈالرکے اس کے منجمداثاثہ جات بھی بحال کردیئے جائیں گے اوریہ عمل فوری طورپرانجام دیاگیاہے۔
ایران اورامریکاکے درمیان مذاکرات کاعمل کوئی دوچاردن کاقصہ نہیں ہے بلکہ اوباماکے دوبارہ الیکشن کے بعدجیسے ہی نئے وزیرخارجہ جان کیری نے ذمہ داریاں سنبھالیں انہوں نے خطے کی صورتحال عراق،افغانستان اورمشرقِ وسطیٰ کوپیش نظررکھتے ہوئے ایران سے بات چیت کافیصلہ کیااورسابق صدراحمدنژادکی آتش بیانی کونظراندازکرتے ہوئے ایران کی اصل بااختیار شخصیت علی خامنہ ای کوخط لکھا۔ذرائع کادعویٰ ہے کہ ہاتھ سے لکھے تین صفحات پرمشتمل اس خط میں انہوں نے مذاکرات کی خواہش کااظہارکیاتھاجس کاخامنہ ای کی جانب سے حوصلہ افزاجواب انہیں بھیجاگیااورایک طرف ایرانی صدراحمدی نژادکی شعلہ بارگفتگواورڈٹ جانے کاتاثرقائم رکھاگیابلکہ توجہ ہٹانے کی خاطراس میں مزیدشدت بھی لائی گئی تودوسری جانب بیک چینل پربات چیت بھی شروع کردی گئی۔بتایاجاتاہے کہ اس بات چیت میں امریکی وفدمیں امریکی نائب صدرکے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزرجیک سیلوان اوربھارتی نژادپنیت تلورشامل تھے جبکہ ایران کی نمائندگی سابق ایرانی وزیرخارجہ علی اکبرصالحی کے نائب مجیداداتچی اورعباس اراگچی کررہے تھے۔سابق صدراحمدی نژاد کے وزیر خارجہ علی اکبرصالحی ان مذاکرات کی نگرانی کررہے تھے۔ انہی خدمات کے صلے میں موجودہ حکومت نے علی اکبرصالحی کواگست ۲۰۱۳ء میں ایرانی ایٹمی کمیشن کاسربراہ بھی مقررکردیاہے۔ 
پس پردہ مذاکرات کی داستان سنانے والے بتاتے ہیں کہ نئی حکومت کے برسراقتدارآنے کے بعدان مذاکرات میں امریکی نائب وزیرخارجہ ولیم برن بھی شریک ہوگئے اورجون میں جرمنی نے بھی مداخلت کرتے ہوئے بات چیت کاآغازکردیاکیونکہ جرمنی اورامریکادیکھ رہے تھے کہ ایران کوساتھ لئے بغیرافغانستان،عراق اورشام تک کے حالات کو سنبھالنا مشکل ہوگا۔یہ بات چیت اتنی تیزرفتاری سے آگے بڑھی کہ ۲۶ستمبرکونیویارک میں جان کیری اورایرانی وزیرخارجہ جوادظریف میں ملاقات ہوئی۔۳۰منٹ کی اس ملاقات کے اگلے ہی روزایرانی صدرحسن روحانی اورباراک اوباما میں ٹیلی فون رابطہ ہوااورایران میں امریکامخالف نعرے بازی اوروال چاکنگ پرپابندی عائدکرتے ہوئے سرکاری سطح پر لگائے بینراورفلیکس اتارنے کاحکم جاری کردیاگیااوراب جنیواسے سامنے آنے والے اعلان میں دونوں ملکوں کے درمیان عارضی بلکہ عبوری معاہدہ سامنے آگیاہے جس پر اسرائیل نے تنقیدتوکی ہے مگراس امیدکے ساتھ کہ امریکانے ان کے دفاع کابھی ضرورخیال رکھاہوگا۔سعودی عرب کاردعمل انتہائی محتاط ہے۔سعودی وزیرخارجہ نے کہاہے کہ اگراس معاہدے پراس کی روح کے مطابق عمل کیاجائے تومشرقِ وسطیٰ سے تباہ کن ہتھیاروں کے خاتمے کی طرف پہلاقدم ہوسکتاہے مگرحقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب اوردیگرعرب ممالک میں اس معاہدے سے انتہائی تشویش پائی جاتی ہے۔کہاجاتاہے کہ معاہدے کے دونکات مرکزی ہیں،ایک یہ کہ ایران کوپانچ فیصدکے لیول پریورینیم افزودہ کرنے کی اجازت ہوگی اوردوسری یہ کہ ایران پرعائدبعض پابندیاں اٹھالی جائیں گی جس سے نہ صرف یہ کہ اس ے گرتی ہوئی کرنسی مضبوط ہوناشروع ہوجائے گی بلکہ اسے سالانہ سات ارب ڈالرکابزنس بھی حاصل ہوجائے گاتاہم ان چھ ماہ میں اسے تیل کی برآمدات بڑھانے کی اجازت نہیں ہوگی۔
ماہرین کاکہناہے کہ پانچ فیصد محض عرب دنیاکومطمئن کرنے کیلئے کہاجارہاہے درحقیقت ایران کویورینیم افزودہ کرنے کی کھلی اجازت مل گئی ہے،یہی وجہ ہے کہ عرب دنیامیں بے چینی کی شدیدلہراٹھی ہے اورعرب ممالک میںیہ رائے بہت مستحکم بنیادوں پرپائی جاتی ہے کہ پہلے امریکااسرائیل کے ذریعے عربوں کوبلیک میل کرتاتھااب ایران کی صورت اسے ایک نیاہتھیار بھی عربوں کے خلاف میسرآگیاہے ۔سعودی مجلس شوریٰ کی خارجہ امورکمیٹی کے سربراہ عبداللہ العسکونے کہاہے کہ اس معاہدے کے بعداب پہلی مرتبہ مشرقِ وسطیٰ میں ایٹمی اسلحے کی دوڑ شروع ہوجائے گی۔عرب ممالک سمیت ترکی بھی اس جانب قدم اٹھائیں گے جبکہ برطانیہ میں سعودی سفیرمحمدبن نائف نے کہاہے کہ اگرایران ایٹمی ہتھیار حاصل کرے گاتوہم ہاتھ پرہاتھ دھرے نہیں بیٹھے رہیں گے۔
سوال یہ ہے کہ اچانک اورغیرمتوقع طورپریہ پیش رفت کیونکرممکن ہوئی؟کہاجاتاہے کہ اس پیش رفت میں دمشق کی موجودہ اورکابل کی آئندہ کی صورتحال نے اہم کرداراداکیاہے اورامریکی ماضی کے تجربات کی روشنی میں سمجھتے ہیں کہ ایران سے بہتراتحادی انہیں دستیاب نہیں ہوسکتااس سلسلے میں ریان سی کروکرکاایک مضمون انتہائی اہم ہے۔یہ صاحب نائن الیون کے بعدافغانستان میں امریکی سفیرکے طورپرآئے،وہاں مدت ملازمت مکمل کرنے کے بعدیہ پاکستان میں تعینات ہوئے ،یہاں اپنادورانیہ پوراکرکے عراق گئے ،وہاں بطورسفیر خدمات انجام دیں جس سے ان کی اہمیت کااندازہ کیاجاسکتاہے ۔نائن الیون کے وقت بھی یہ امریکاکی وزارتِ خارجہ میں تھے اورایران سے مذاکرات میں شریک تھے۔
ریان سی کروکرنے حال ہی میں نیویارک ٹائمزمیں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں جوانکشافات کئے ہیں ان سے ایران امریکاتعلقات سمجھنے میں بڑی مددملتی ہے اوریہ بھی انکشاف ہوتاہے کہ معاملہ صرف جوہری توانائی کانہیں ہے ،بات دورتک پھیلی ہوئی ہے۔کروکرنے لکھاہے کہ افغانستان پرحملے کے ابتدائی مہینوں میں ایران نے طالبان کے خلاف امریکاکی جومددکی وہ بہت کلیدی نوعیت کی تھی۔ایران نے بڑے پیمانے پرطالبان کے زمینی ٹھکانوں اورموومنٹ کی بالکل درست معلومات مہیاکیں اوریہ معلومات اس قدر جامع تھیں کہ طالبان کے خلاف امریکی کامیابیوں میں ان کابنیادی کردارتھابلکہ ان کے بغیرامریکی کامیابی ممکن ہی نہیں تھی۔دراصل دونوں ملکوں میں ایک ہی نکتہ فوکس تھاکہ مشترکہ دشمن طالبان کوختم کرناہے ۔کروکرکے بقول اب بھی یہی مشترکہ پوائنٹ دونوں ملکوں میں تعلقات کی بنیاد بن سکتاہے۔
کروکرمزیدکہتے ہیں کہ وہ بذاتِ خودایران سے مسلسل رابطے میں رہے ہیں اور۲۰۰۲ء میں ایران میں موجودافغان مجاہدلیڈرحکمت یارکے حوالے سے ایران اورامریکاکے درمیان معاملات طے ہوچکے تھے اورایران حکمت یارکوافغان حدودمیں لاکرامریکاکے حوالے کرنے پرآمادہ ہوچکاتھامگراس دوران صدربش کی (Access of Evil)ایکسس آف ایول والی تقریرہوگئی اور ایران بدک گیا ۔اب خبرنہیں کہ حکمت یارکو ایران نے نکال دیایاوہ خودبھنک پڑنے پرایران سے غائب ہوکرافغانستان آگئے اورطالبان سے ہاتھ ملالیامگراس کے باوجودبھی کروکر کے بقول یہ تاثردرست نہیں کہ ا یران اورامریکادوبدوتھے،اختلاف تھامگراتنابھی نہیں تھا۔طالبان کے علاوہ عراق میں بھی ایران نے مثالی تعاون کیا۔افغانستان کے حوالے سے کروکرکاکہناہے کہ حامدکرزئی کی رجیم کی تخلیق اوراسے برسرِ اقتدارلاناایرانی مددکے بغیرناممکن نہیں تھااورایراان نے اس حوالے سے بون کانفرنس کے موقع پراہم کرداراداکیا چونکہ پاکستان شمالی اتحاد کوکابل پرقبضہ کروانے کامخالف تھااورایران کابھی،ایران اورامریکاملک مکاکی پالیسی کے سبب پاکستان کوناکامی کامنہ دیکھناپڑااورایران کی حمائت سے شمالی اتحادکابل میں آکربیٹھ گیا۔
کروکرنے عراق کے حوالے سے انکشاف کیاہے کہ ۲۰۰۷ء میں جب مقتدیٰ الصدرکی ملیشیانے امریکاکیلئے مسائل پیداکرنے شروع کئے توانہوں نے بطورامریکی سفیر ایران سے بات چیت کی اورایران کی مددسے ہی مقتدیٰ الصدرکوکنٹرول کیاگیااورپھریہ تعاون مزیدآگے بڑھااورعراق میں امریکاکے خلاف مزاحمت فرقہ وارانہ خانہ جنگی میں بدل کررہ گئی ۔ آج بھی وہاں فرقہ وارانہ خانہ جنگی پورے ملک کونگل رہی ہے اورالقاعدہ اورصدام کے حامیوں کومتحدہوکراقتدارپرقبضہ کرنے کی راہ روکنے کی خاطرامریکااورایران باہم تعاون کرتے نظرآتے ہیں۔
کروکرنے سب سے دلچسپ انکشاف یہ کیاہے کہ حال ہی میں (ستمبر)ایرانی حکام نے ان سے ملاقات میں کہاکہ اگرمریکا،شام اورافغانستان کے حوالے سے ہم سے تعاون پر تیار ہوتومعاہدہ ہوسکتاہے اورکروکرسے پرانے تعلقات کی بنیادپرکہاگیاکہ یہ دردِ دل ہی دونوں ملکوں کومتحد کرنے کاسبب بنااورمعاہدہ تیزی سے روبۂ عمل ہوا۔کروکرکہتے ہیں کہ ایران کیلئے یہ گارنٹی بھی بہت اہم تھی کہ امریکاموجودہ رجیم کواقتدارسے ہٹانے کی کوشش نہیں کرے گا۔دوسری جانب امریکاکی سب سے بڑی اورپہلی گلوبل انٹیلی جنس فرم ’’سٹراٹ فار‘‘(STRATFOR) کے ہیڈسابق سی آئی اے اہلکارجارج فرائیدمین(George Friedman) نے اپنی کتاب(America:Secrat War) ’’امریکا: سیکرٹ وار‘‘ میں لکھاکہ’’ امریکاکواصل خطرہ شیعہ ایران سے نہیں بلکہ سنی ممالک سے ہے۔امریکاکچھ بھی کرلے سنی ممالک اورسنی عوام سے جہادکومائنس نہیں کراسکتا جبکہ ایران نے پچھلے تیس سال کے دوران امریکایامغربی ممالک کیلئے کوئی مسئلہ پیدانہیں کیالہنداہمیں ایران کوساتھ ملا کراصل خطرے کی جانب متوجہ ہوناہوگااوربالآخرامریکامستقبل میں جہادیوں سے مقابلے کیلئے ایران کی خدمات حاصل کرنے میں کامیاب رہا‘‘۔
پاکستان اورعرب دنیامیں خارجہ ا مورکے ماہرین کی متفقہ رائے ہے کہ ایران کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے نتیجے میں امریکاکوایک ایساساتھی میسرآگیاہے جوافغانستان میں آنے والی طالبان حکومت ،پاکستان اورعرب ممالک کے خلاف اہم کرداراداکرے گااوراس معاہدہ کی بنیادہی خطے میں مشترکہ مفادات کے حوالے سے تعاون ہے۔دوسری جانب اس معاہدے کے فوراً بعد سی آئی اے نے پاکستانی اداروں کوخفیہ ملاقاتوں میں کہناشروع کیاہے کہ اگرآپ نیٹو سپلائی بندکرناچاہتے ہیں توشوق سے کردیں ،ہمیں کراچی پورٹ کے متبادل کے طورپرایران کی بندرعباس پورٹ میسرآگئی ہے۔اس حوالے سے ذمہ داران کادعویٰ ہے کہ بندر عباس کے علاوہ گوادرکے مقابلے کیلئے بھارتی حکومت نے ایران میں ایک نئی بندرگاہ چہارباغ کے مقام پرتعمیرکی ہے اورحیرت انگیزحقیقت یہ ہے کہ امریکاایران کشیدگی کے ایام میں اس بندرگاہ کوایک سڑک کے ذریعے افغانستان میں ہرات ہائی وے سے ملادیاگیاہے اوراس کابہت تھوڑاساٹکڑاتعمیرہوناباقی ہے۔ امریکی اپنی سپلائی اس طرف سے لیجانے کی کوشش میں ہیں اورایران کی جانب سے بھی گرین سگنل مل چکاہے ۔
ذرائع کے دعویٰ ہے کہ یہ معاہدہ ابھی زیر بحث ہی تھاکہ گڈول کے طورپراسرائیل فورسزنے شام کے خونخوارآمربشارالاسدکی فورسزکی مددکی اوراسرائیل سرحدسے ملحق گولان کے علاقوں سے باغی جہادیوں کاقبضہ ختم کراکروہاں پھرسے بشارکی فورسزکاقبضہ بحال کرادیاگیاہے جبکہ بتایایہ جاتاہے کہ مستقبل میں ایران کی پرانی حیثیت بحال ہونے کے امکانات زیادہ ہیں کیونکہ امریکی ایک طرف سعودی عرب ،دوسری طرف پاکستان،تیسری جانب افغانستان کوہینڈل کرنے کیلئے ایران سے موزوں کسی کونہیں دیکھ رہے جبکہ عراق اورمشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک کاکنٹرول بھی حاصل ہوسکے گا۔جبکہ عراق کے تجربہ کی روشنی میں تمام مسلم ممالک میں شیعہ سنی فسادبھڑکاکرجہادی قوتوں کارخ امریکااورمسلم دشمن قوتوں سے بدل کرباہم خانہ جنگی کی طرف کرنے میں امریکاکامیابی حاصل کرسکتاہے جس کاحال ہی میں راولپنڈی میں تجربہ کیاگیاہے۔
مبصرین کے خیال میں یہ معاہدہ ایک گنجلک جال کی حیثیت رکھتاہے اوردیکھنایہ ہے کہ ایران حکومت اس جال سے کس طرح نکلنے میں کامیاب ہوتی ہے کیونکہ امریکی زیرسرپرستی سعودی عرب کے نام نہادایٹمی خواب اورپاکستان کے تعاون کے افسانے ابھی سے ایک تسلسل کے ساتھ مغربی میڈیامیں شائع ہونے لگے ہیں۔امت مسلمہ کے بچاؤ کاصرف ایک ہی راستہ ہے کہ ایرانی حکومت امریکی عزائم کوسمجھتے ہوئے امریکاایران تعلقات کوفرقہ واریت کیلئے ہرگزاستعمال نہ ہونے دے!

 

«
»

ظلم و بربریت کا بازار صرف ایوانِ اقتدار تک محدود نہیں۰۰

پہاڑ:حیات الارض کے ضامن………International Mountains Day

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے