تعمیر تاج المساجد وسط ہند میں ایک ولولہ انگیز کارنامہ

قدرتی نشیب وفراز سے آراستہ یہ شہر چار نسلوں تک بیگمات کی حکمرانی اور ان کی تعمیر کی گئی مساجد کی وجہ سے جانا جاتا ہے، لیکن جس مسجد نے اس شہر کو پوری دنیا میں شہرت بخشی، وہ تاج المساجد ہے، جو برصغیر کی چار عظیم الشان مساجد میں شمار ہوتی ہے۔
تاج المساجد کا سنگ بنیاد ریاست کی تیسری خاتون فرمانروا خلد مکانی نواب شاہ جہاں بیگم نے ۱۸۸۶ء میں رکھا، شاہ جہاں بیگم بھوپال کی وہ خاتون حکمراں ہیں، جنہیں اپنے ہم نام مغل بادشاہ شاہجہاں کی طرح عمارت سازی کا بڑا شوق تھا، ان کے اس تعمیری ذوق کا ثبوت تاج محل، عالی منزل، بے نظیر، گلشن عالم جیسی منفرد عمارتیں ہیں اور ان میں سب سے نمایاں تاج المساجد ہے، جس کی تعمیر کے لئے بیگم صاحبہ نے اپنے خزانہ کا منہ کھول دیا تھا، اس میں استعمال کیلئے آگرہ کا پتھر بھوپال لایا گیا، متھرا اور جے پور کے کاریگر مامور ہوئے، ستون اور جنگلوں پر نہایت خوبصورت نقاشی کی گئی، دالانوں کے کتبے سنگ موسیٰ سے پچکاری کرکے تیار ہوئے، بلوری فرش انگلینڈ سے تیار کرنے منگوایا گیا، مسجد کو زینت بخشنے کیلئے جھاڑو فانوس اور شیشہ کا دوسرا سامان بیلجیم کی ایک معروف کمپنی سے بیش قیمت رقمیں صرف کرکے تیار کرایا گیا، مسجد کا نقشہ لاہور کی شاہی جامع مسجد کو سامنے رکھ کر جزوی تبدیلی کے ساتھ مرتب ہوا اور اس عظیم الشان تعمیری منصوبہ پر عمل کا رنگ بھرنے کیلئے خوش بختی سے اللہ دلائے نام کا مشہور اور اپنے دور کا تجربہ کار ماہر تعمیر میسر آگیا، جس طرح آگرہ کے تاج محل کی تعمیر کیلئے شیراز نامی ماہر تعمیرات جہانگیر کو مل گیا تھا، اسی طرح عہد شاہجہاں کے بھوپال کے تمام محلات ومساجد پر اللہ دلائے کے دستِ شہ کار آفریں کا اثر نظر آتا ہے۔پندرہ سال تک جاری رہنے والی تعمیر سے مسجد کے دونوں مینار نصف کے قریب، اس کی چھت ومحرابیں، جنوبی و مشرقی دالان، شمالی دالان کے صرف ستون اور مشرقی و مغربی برجیاں ہی تعمیر ہوپائیں تھیں کہ بیسویں صدی آتے آتے ۱۹۰۱ء میں شاہجہاں بیگم کی وفات ہوگئی اور وہ مسجد کو مکمل کرنے کی حسرت دل میں لئے دنیا سے رخصت ہوگئیں۔انہوں نے تاج المساجد کیلئے بلور کے مصلے، کلس، فوارے اور زنانہ حصے کیلئے بلوری فرنیچر منگوایا تھا جو سب کرسٹل کٹ تھا، بیگم صاحبہ کی یہ آرزو تھی کہ مسجد کی تعمیر مکمل ہونے پر رسم افتتاح کی تقریب منعقد ہوتو اس میں تعمیری کام انجام دینے والے سارے عملے کاریگر و مزدور وغیرہ کو دو دو ماہ کی اجرت نقدی کی صورت میں اور اتنی ہی قیمت کے جوڑے بیڑے تقسیم کئے جائیں اور اس کیلئے ہزاروں کی تعداد میں اطلس، کمخواب اور مشروع کے تھان خرید کر توشہ خانے میں جمع کرلئے گئے تھے۔ لیکن بیگم صاحبہ کی آنکھیں بند ہوتے ہی مسجد کا کام رک گیا ، اس کے خارجی میدان میں پڑے ہوئے تراشیدہ پتھر، منتظر رہے کہ مسجد کی تعمیر میں ان کا استعمال ہو۔
اہل نظر اس سے اندازہ کرسکتے ہیں کہ نواب صدیق حسن خاں کی حوصلہ مند بیگم نواب شاہجہاں صاحبہ کی زندگی وفا کرتی اور ان کی حیات میں تاج المساجد مکمل ہوجاتی تو مغل شہنشاہ شاہ جہاں کے بنوائے ’’تاج محل‘‘ کی طرح اس مسجد کا شمار عجائبات میں نہ سہی فن تعمیر کے جلال وجمال کے نقش حسیں میں ضرور ہوتا، لیکن پچاس برس تک یہ ادھوری مسجد جو عبادت الٰہی سے آباد ہونے والی تھی، جہاں اللہ اکبر، قال اللہ اور قال الرسول کی صدائیں گونجنے والی تھیں، وہی مسجد ویرانی کا شکار ہوکر ، ناپسندید عناصر کی پناہ گاہ بنی رہی۔شاہ جہاں بیگم کی بیٹی نواب سلطان جہاں کیونکہ اپنی والدہ سے ناراض تھیں، لہذا انہوں نے ماں کے اس ادھورے کام کو مکمل نہ کیا، ان کے بیٹے نواب حمیداللہ خاں کی ہمت بھی جواب دے گئی اور وہ بھی اپنی نانی کے اس زبردست منصوبے کو تکمیل تک نہ پہونچاسکے۔ پورے پچاس سال بعد ۱۹۵۰ء میں یہ کام جو بادشاہوں نے شروع کیا تھا لیکن ان کے وارث مکمل کرنے سے قاصر رہے۔ بقول مولانا عبدالماجد دریابادی ایک بوریہ نشیں، علماء کی صف کے صاحب عزم وہمت فردِ فرید کی قسمت میں لکھا تھا کہ وہ اس کام کو پورا کریں لہذا خاندانِ مجددیہ کے چشم وچراغ اور رشدوہدایت کے مینار حضرت شاہ محمد یعقوب صاحب مجددیؒ نے اپنے لائق مرید مولانا محمد عمران خاں ندوی ازہری کو ہدایت کی کہ وہ مسجد کی تعمیر کا کام ازسرنو شروع کریں اور مولانا محض اللہ کے بھروسے ندوۃ العلماء لکھنؤ جیسی اہم دینی درس گاہ کے اہتمام کی ذمہ داری چھوڑ کر اپنے مخلص رفقاء کو ساتھ لیکر تاج المساجد کی تعمیر میں مصروف ہوگئے۔ تائید غیبی اور نصرت خداوندی نے ایسا کرشمہ دکھایا کہ اس ویران مسجد میں نہ صرف دارالعلوم تاج المساجد کی بنیاد پڑ گئی بلکہ تعمیر مسجد کا کام بھی شروع ہوگیا اس وقت علامہ سید سلیمان ندوی ریاست بھوپال کے قاضی القضاۃ تھے، آپ کی ہمت افزائی نے بھی شاگرد کے حوصلوں کو جلا بخشی، مولانا عمران خاں نے مسجد کی تعمیر اور دارالعلوم کی تنظیم میں اپنی ساری صلاحیتیں جھونک دیں۔ملک اور دنیا کی سرحدوں کے فاصلے ان کی ہمت کے آگے سمٹ گئے، عرب وعجم، یوروپ وایشیا اور افریقہ تک سارے جہان کا خود سفر کرکے یا اپنے سفیروں کو پہونچا کر مسلمانان عالم کو مسجد کی تعمیر میں شریک کیا یہاں تک کہ ۱۹۸۶ء میں اصحاب خیر کے تعاون سے مسجد تکمیل کو پہونچی، چھتیس سال کی شب روز محنت، ہزاروں کاریگروں و مزدوروں کی مشقت، لاکھوں بندگانِ خدا کے مالی تعاون اور ہزاروں اہل اللہ کی دعاؤں کے طفیل میں دو کروڑ کے سرمایہ سے قدیم وجدید فنِ تعمیر کا یہ پروجیکٹ مکمل ہوا۔ اس کی تعمیر میں جہاں مساجد کے تمام روایتی خط وخال کا لحاظ رکھا گیا، وہیں اس کی ہئیت کو دلکش بنانے کی بھی پوری کوشش کی گئی۔ مسجد کے مرکزی ہال یعنی جماعت خانے کا رقبہ تقریباً ۲۴ ہزار مربع فٹ، جبکہ چھت اس کے تین گنا حصہ پر پھیلا ہوا ہے، ہر مینارہ کی بلندی ۲۰۶ فٹ اور قطر تقریباً ۲۸ فٹ ہے اور گنبد۴۰ فٹ پر محیط ہیں۔ مسجد کے شمال وجنوب میں پتھروں کی خوبصورت جالیوں سے آراستہ پردہ نشین خواتین کیلئے دو علاحدہ حصے بھی تعمیر کئے گئے ہیں جو سنگ تراشی کا شاہکار کہے جاسکتے ہیں۔ مسجد کی شہرت اور عظمت کو پوری دنیا میں متعارف کرانے میں یہاں ۵۴سال تک منعقد ہونے والے تبلیغی اجتماع کا بھی اہم حصہ ہے۔ جس میں ہر سال ہند اوربیرون ہند سے لاکھوں بندگان خدا شرکت کرتے تھے، بحیثیت مجموعی تاج المساجد آج ایشیا کی مایہ ناز مسجد ہی نہیں اپنے بانی اور معمار کے حوصلے نیز فن تعمیر کے شاہکار کا درجہ بھی رکھتی ہے، اگر مسجد اس کے معمارِ اول کے حوصلے کے مطابق مکمل ہوجاتی تو یقیناًدنیا میں اپنی مثال آپ ہوتی۔

«
»

خالی جیلیں

ہاتھ کنگن اور آرسی!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے