برما میں مسلم اقلیت کی نسل کشی

کہا جاتا ہے کہ پولیس نے ان پر قابو پالیا لیکن فسادات یکم اکتوبر کو دوبارہ بھڑک اٹھے اور دیکھتے دیکھتے Byuchaing، Pauck Taw، Shwe Haly اور Me Kyun قصبات تک پھیل گئے اور ان میں اموات واقع ہوئیں جو ظاہر ہے مسلمانوں کی تھیں۔ ان فسادات میں 110 مکانات نذرِ آتش کردیے گئے۔
اس سے قبل 24 اگست کو برما کے علاقے Sagaing کے قصبے KANTBALU کے 11 میل جنوب میں واقع HTAN GONE نامی گاؤں میں اس افواہ کے گشت کرنے پر کہ کسی مسلمان نے ایک بدھ مت کی عورت کے ساتھ زیادتی کی ہے، ایک مشتعل ہجوم نے ڈنڈوں اور تلواروں سے مسلح ہوکر تھانے کا گھیراؤ کرلیا اور اس فعل کے مرتکب شخص کی حوالگی کا مطالبہ کرنے لگا۔ بعد ازاں بلوائیوں نے مسلمانوں کی بستی پر حملہ کردیا اور مقامی ٹیلی ویژن کے مطابق 42 مکانوں اور 15 دکانوں کو جلا دیا (ڈان 26 اگست 2013ء)۔ اس پر اسمبلی میں KANTBALU سے منتخب ہونے والے رکن MYNT NAING نے کہا کہ ہمیں اس بات پر حیرت ہے کہ حکام اب تک فسادات پر قابو کیوں نہیں پاسکے! ان کا کہنا تھا کہ اس بستی میں ایک مسجد نذرِ آتش کردی گئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس علاقے میں تو مسلمان اور بدھ ایک زمانے سے ساتھ رہتے آئے ہیں۔ (ڈان 26 اگست 2013ء)
اراکان میں مسلمان خاصی تعداد میں آباد ہیں اور برما کے دوسرے شہروں بالخصوص رنگون میں تو برصغیر کے باشندے ملازمت اور کاروبار کے سلسلے میں جاتے تھے۔ اس زمانے میں برما برطانوی ہند کا ایک صوبہ ہوا کرتا تھا اور ساری قومیں مل جل کر رہتی تھیں۔ لیکن برما کی آزادی کے بعد جو حکومتیں برسراقتدار آئیں انہوں نے ہندوستانی نژاد باشندوں کو جو وہاں بس گئے تھے، غیرملکی قرار دے کر ان کی املاک ضبط کرلیں اور انہیں معاوضہ نہیں دیا۔ برما کے نسل پرست حکمرانوں نے صرف ہندوستانی نژاد باشندوں کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا بلکہ کاچن اور دیگر نسل کے قبائل کی بھی تطہیر کا سلسلہ شروع کردیا جس کے باعث انہوں نے حکومت کے خلاف پہاڑی علاقوں میں چھاپہ مار جنگ شروع کردی اور اپنے آبائی علاقوں پر تسلط قائم کرلیا۔ آج بھی ان علاقوں میں برما کی پولیس اور فوج داخل نہیں ہوسکتی اور ان سے مذاکرات پر آمادہ ہوگئی۔
لیکن برما کے صوبے راکھین کے مسلمان کسمپرسی کی حالت میں ہیں کیونکہ انہیں برما کی نسل پرست حکومت ملک کا شہری نہیں تصور کرتی۔ یہ بات برما کے موجودہ صدر Thein Sein نے کئی بار کہی ہے۔ برما کی حکومت کا دعوی ہے کہ 1948 کے بعد مشرقی بنگال کے باشندے ترکِ وطن کرکے برما میں داخل ہوگئے تھے، لہذا وہ برما کے شہری نہیں بلکہ غیرملکی ہیں اور انہیں اپنے وطن واپس جانا ہوگا۔ ان پر برما کی حکومت نے بڑی سختیاں شروع کردی ہیں یعنی وہ انتظامیہ کی اجازت کے بغیر شادی نہیں کرسکتے اور دو سے زیادہ بچے نہیں پیدا کرسکتے۔ وہ برما کے دیگر علاقوں میں علاج معالجے کے بھی حق دار نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل نے روہنگیا مسلمانوں کو دنیا کی مظلوم ترین آبادی قرار دیا ہے، جب کہ Human Rights Watch نے ان کے ساتھ کیے جانے والے انسانیت سوز سلوک کا انکشاف کیا ہے۔
جون 2012 میں راکھین میں خونریز مسلم کش فسادات میں 250 افراد ہلاک جب کہ ایک لاکھ چالیس ہزار بے گھر ہوگئے (ڈان 26 ستمبر 2013ء) (اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے)۔ ایک بڑی تعداد جان بچانے کے لیے ساحلی علاقوں سے کشتیوں میں سوار ہوکر تھائی لینڈ اور دیگر ممالک کی جانب فرار ہوگئی جن میں بیشتر ہنوز لاپتا ہیں۔ البتہ تھائی لینڈ میں سرحد کے قریب روہنگیا پناہ گزینوں کی کچھ تعداد خیموں میں موجود ہے جو حکومت کی جانب سے نصب کیے گئے ہیں، لیکن بنگلہ دیش نے بدنصیب روہنگیا کو پناہ لینے کے لیے اپنی سرزمین میں داخل نہیں ہونے دیا۔ اس کے مقابلے میں جب افغانستان میں سوویت یونین کی مداخلت پر مزاحمت شروع ہوئی تو تیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین پاکستان میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے جنہیں حکومت اور عوام نے سرآنکھوں پر بٹھایا اور ان کی آباد کاری میں سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر دل کھول کر امداد فراہم کی گئی۔ ان کی بیشتر تعداد اب بھی پاکستان میں آباد ہے۔ ادھر بنگلہ دیش ان روہنگیا کو پناہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے جنہیں بنگلہ دیشی قرار دے کر نکالا جارہا ہے۔
اس ضمن میں یہ بین الاقوامی برادری کا فرض ہے کہ برما کے روہنگیا باشندوں کے خلاف امتیازی سلوک کے تدارک کے لیے (1) یا تو انسانی حقوق کونسل سے رجوع کرے، یا (2) سلامتی کونسل میں برما کے خلاف شکایت کرے کہ اس کی امتیازی پالیسی کے نتیجے میں خطے میں عدم استحکام پیدا ہوسکتا ہے جس سے نقص امن کا اندیشہ ہے۔ (3) ہیگ کی بین الاقوامی تعزیراتی عدالت میں برما کے موجودہ حکمرانوں کے خلاف روہنگیا کی نسل کشی کا مقدمہ دائر کرے۔ روہنگیا کا مقدمہ بہت مضبوط ہو گا کیونکہ انسانی حقوق کونسل اور اقوام متحدہ کے نمائندوں نے راکھین میں فساد زدہ علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد یہ رپورٹ دی کہ روہنگیا مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے جارہے ہیں جس سے ان کی نسل فنا ہو سکتی ہے۔ (4) بین الاقوامی عدالتِ انصاف سے رجوع کیا جائے۔
اس وقت جو صورتِ حال ہے وہ بالکل غیریقینی ہے۔ برما کی حکومت ان کو بنگالی تارکین وطن کہتی ہے، جب کہ بنگلہ دیش کی حکومت ان کو اپنانے کو تیار نہیں ہے۔ اس طرح وہ کسی ریاست کے شہری نہیں ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے بین الاقوامی کنونشن موجود ہیں۔ (Convention Relating to State less Persons مجریہ 28 ستمبر 1954ء، Convention On Reducation Statelessnes مجریہ 30 اگست 1961ء۔ آخر الذکر کنونشن کی رو سے شہریت سے محروم شخص اپنی جائے پیدائش والے ملک کی شہریت کا حق دار ہے یا اپنی پیدائش کے وقت اپنے باپ کی شہریت کا مستحق ہے۔ اس طرح ان روہنگیا کو جو راکھین میں پیدا ہوئے ہیں برما کی شہریت ملنی چاہیے۔ بین الاقوامی میثاق برائے شہری اور سیاسی حقوق کی رو سے کوئی ریاست کسی شہری کو اس کی شہریت سے محروم نہیں کرسکتی۔ برما کے متعصب حکمران روہنگیا مسلمانوں کو جو وہاں پیدا ہوئے ہیں، شہری حقوق سے محروم کرکے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔ لہذا انسانی حقوق کونسل یا بین الاقوامی عدالتِ انصاف انہیں روہنگیا قومیت کو شہری حقوق دینے کی ہدایت کر سکتی ہے۔ پھر ان کے ساتھ کی جانے والی ناانصافیوں کا خاتمہ کیوں نہیں کیاجا سکتا!
یوں تو امریکہ اور یورپ مسلم ممالک میں مسیحی آبادی کے ساتھ ذرا سی بھی زیادتی پر حرکت میں آجاتے ہیں اور پوپ سب سے پہلے دہائی دینے لگتا ہے جیسے پشاور میں گرجا گھر پر دہشت گردانہ واردات پر چیخ اٹھا تھا، لیکن برما کی روہنگیا آبادی کی نسل کشی کے تدارک کے لیے موثر اقدام کیوں نہیں کیا جاتا؟ بین الاقوامی تعزیراتی عدالت جنوبی سوڈان کی غیر مسلم اور عیسائی آبادی کی مبینہ نسل کشی پر صدرِ ریاست عمرالبشیر کے وارنٹ گرفتاری تو جاری کردیتی ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ برما کے Thein Sein کے خلاف کوئی اقدام نہیں کرتی؟

«
»

اقوام متحدہ مظلوم ودربَدرانسانوں کے لیئے مسیحا

معاشی مسائل سے دماغی صلاحیت محدود

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے