دھوکہ عظیم

اب ذرا غور کیجئے کہ پارلیمنٹ یا ممبئی پر حملہ کوئی معمولی بات تھی۔ جن حملوں سے پورے ملک سکتے میں آگیا ، میڈیا میں خبروں کے اچھال کے ساتھ بحث مباحثوں کا دور چل چلا، ہندو پاک سرحد پر فوجیوں کی طیناتی بڑھ گئی ، مقدمے ہوئے عدالت میں جرح ہوئی یہاں تک کہ پھا نسیاں تک پڑ گئیں۔ لیکن آج یہ راز کھل رہا ہے کہ ان حملوں میں سرکاروں کا ہی ہاتھ تھا تو بھلا بتایئے اقتدار پر بیٹھی سیاسی پارٹیاں ہندوستان کو کہاں لے جانا چاہ رہی ہیں۔ 2001میں پارلیمنٹ پر اور 2008میں ممبئی حملہ ہو ا اور اب اتنے دنوں کے بعد اس کے پیچھے کی سازش سے پردہ اُٹھ رہا ہے۔ اتنے عرصے میں فرقہ پرست ذہنیت کو مفت میں کتنی مظبوطی مل گئی، مسلمانوں کی امیج کو کتنا ذق پہونچایا گیا، پوٹا و یو اے پی اے جیسے قانو ن بنائے گئے ،جس کا خسارہ مسلمانوں کو جھیلنا پڑا ہے اور نہ جانے آگے کب تک جھیلنا پڑے۔ سیاسی اُفق پر نریندر مودی جیسے کردار کو اونچائی ملی، کمیونسٹ و سوسلشٹ پارٹیوں کا ایوان میں حصہ داری کمی۔ قومی سطح کی سیاسی پارٹیاں کو مضبوطی ملی اور علاقائی پارٹیاں کمزور پڑیں۔ اتنی بڑی تبدیلی جس ایشو کو لے کر ہوئی وہ ایشو ( پارلیامنٹ و ممبئی ؍حملے) صرف ایک سازش ثابت ہوئی بلکہ مرکزی سرکار نے خود کرائے تھے ۔ یہ راز کھل کر سامنے آگیا ہے تو پھر سونچئے ملک کے لوگوں کے اعتماد کو کتنا دھکا پہنچا ہوگا۔ یہ حرکت تو ویسے ہی ہے جیسے کرکٹ میں میچ فکسنگ کا معاملہ ہوتا ہے ایک ایسا کھیل کہ جب عام عوام سارے کھڑکی دروازے بندکر ٹی وی دیکھنے میں مگن رہتا ہے اور چھکے چوکے مارنے پر خوشی اورکیچ چھوڑنے پر افسوس ظاہرکیا کرتا ہے اگر ایسی دیوانگی کے بیچ اسے پتہ چلے کہ کب چوکا اور چھکا لگانا ہے اورکب کیچ کو چھوڑنا ہے یہ پیسہ لے کر پہلے سے طے شدہ ہوتا ہے، تو میچ کے شوقینوں کے جذبات کو کتنی ٹھیس پہنچتی ہوگی اور وہ اپنے کو کتنا ٹھگا سے محسوس کرتا ہوگا۔ اُس کا کرکٹ میچوں پر سے بھروسہ ٹوٹنے لگتا ہوگا۔ وہی حالت ہم ہندوستانیوں کی تب ہوگی جب یہ خبر دھیرے دھیرے عام لوگوں تک پہنچے گی کہ پارلیامنٹ و ممبئی حملہ فرضی تھا، تقریباً سبھی بم بلاسٹ و انکاؤنٹر فرضی ہوتے ہیں۔ یہ سرکارکی مرضی سے ہوتی ہے چاہے وہ صوبائی ہو یا مرکزی ، اور ان حادثات کے پیچھے صرف اور صرف سیاست ہوتی ہے ۔ 1990میں اُٹھی سماجی انصاف کی لہر نے تو یہاں تک ثابت کر دیا کہ 80؍ کی دہائیوں تک ؍ میں ہوئے فرقہ وارانہ دنگا و فساد ، سرکار کی اسپانسرڈ ہوا کرتی تھی ۔ اب تو یہ بھی ثابت ہوچلا ہے کہ کرسی کی خاطر اُٹھائے گئے اس قدم سے ملک اور سماج کو نقصان ہی ہوتا رہا ہے، کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے۔ اگر ایسی سیاست سے فائدہ ہی ہوتا تو مہنگائی ، بے روزگاری، بھرشٹاچار یہاں کبھی آسمان نہیں چھوتا ۔ کسانوں کی خودکشی ، تعلیم یافتہ نوجوانوں کا ملک سے باہر جانا، ڈانس بار کا کھلنا، وغیرہ جیسے بے انتہا مسائل ہمیں نہیں جھیلنے پڑتے۔ 65سالوں کی آزادی کے بعد ہمیں فوڈ سیکوریٹی بل لانے کی ضرورت نہیں پڑتی اگر مثبت سیاست ہوئی ہوتی جس ظلم و جبر کے خلاف ہمارے اسلاف نے جنگ آزادی لڑی اور ہزاروں کی تعداد میں قربانیاں دیں اُن کی نسلوں کے لئے نہ جانے کون کون سے سیکوریٹی بل ابھی مزید لانے کی ضرورت پڑے۔ اب تک نہ تو ملک تعلیم کی شرح ہی سو فیصد کر پائے اور نہ ہی لائف کو سیکیوریٹی دے پائے۔ بس جہاں ووٹ کی ضرورت پڑے وہاں اقلیتوں کو نشانہ بناکر اُسے مختلف ذرائع سے ہوا دے کر قومی ایشو بنا دو، بس تمہاری جھولی میں ووٹ ہی ووٹ ہے۔ آخر یہ سلسلہ اب کب تک چلے گا۔ قومی سیاسی جماعتوں کا یہ نظریہ کب بدلے گا۔ آزادی کے 65سال گذر گئے اگر ہم اسی طرح سے بے ِ حسں رہینگے تو پھریہ قومی سیاسی جماعتیں ملک کو کہیں کا نہیں چھوڑینگی۔ ملک کے رُخ کو راہ راست پر لانا ہماری بھی ذمہ داری ہے۔ اُلٹے رُخ میں ملک کے جاتے رہنے سے اقلیتوں کے ساتھ ہندوستانی سماج کے پچھڑے و دلتوں کو زیادہ نقصان ہے۔ اسی بات کو سمجھاتے ہوئے ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہوگا۔ ہمیں یہ طے کرنا ہوگا آیا روزی ، روٹی، تعلیم ، علاج بات، رہن سہن، ہمارا بڑا مسئلہ ہے یا صرف مذہب کی بنیاد پر اُٹھائے گئے معاملات ۔مسلم تنظیمیں ، مسلم سیاسی کارکنان جو اپنی سیاسی پارٹیوں کی پالیسی کے مطابق ہی احتجاج یا مظاہرے کرتے ہیں۔انہیں طے کرنا ہو گا آیا وہ تعلیم روزی روٹی جیسی بنیادی مسائل کے لئے روڈ پر آئیں یا پھر مذہبی مددوں پر ہی تال ٹھوکتے رہیں گے۔ مذہب کو سامنے رکھ کر اگر ہمارے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے تو پھر خاموشی سے عدالت کا سہارا لے کر اُسے حل کیوں نہیں کر لیتے، اُسے روڈ پر لیکر کیوں اُترجاتے ہیں۔ ان مدووں کو لے کرروڈ ، پر اترنے سے ایک تو مسلم مخالف طاقتوں کوایک جُٹ ہونے میں مدد ملتی ہے جس کا وہ سیاسی فائدہ اُٹھا لیتے ہیں لیکن دوسری طرف اقلیتوں کو نقصان بھی ہوتاہے اور آخر میں عدالت کا ہی سہارا لینا پڑتا ہے۔ شاہ بانو کا کیس ہو بابری مسجد کا معاملہ ان ایشو ز کیلئے روڈ پر اترنے کا نتیجہ کیاآیاہے۔ یہی نا کہ جہاں ایک طرف پرسنل لاء میں بھی تبدیلی کی گئی اور بابری مسجد بھی ہاتھ سے گئی وہیں دوسری طرف سنگھ پریوار اقتدار کے نزدیک پہنچ گیا۔ اڈوانی و نریندر مودی جیسے کرداروں کو آئیڈیل بنا کر پیش کیا گیا اور مسلمانوں کی اقتدار میں حصہ داری کم ہوتی چلی گئی۔ اتنے سارے بدلاؤ کے بعد بھی اگر مسلمان نہ خبردار ہوتے ہیں تو پھر فرقہ پرستوں کے ہندی، ہندو، ہندو راشٹر کے خواب کو پورا ہونے سے روک سکتا ہے۔ ایشوز چاہے ہمارے بنیادی مسائل سے جڑے ہوں یامذہبی تخشص سے یہ سبھی ایشوز ہیں لیکن حکمت عملی اسی میں ہے کہ ہم اسے کیسے ترجیح دیں۔ ہمارے نمائندوں و سیاسی کارکنان نے پاڑٹی کی لکچھمن ریکھا کے حساب سے ہمیشہ مذہبی مددوں کوہی ترجیح دینے کا کام کیا ہے جبکہ اتنے لمبے عرصے کے تجربے اور آج کی حالات ہمیں اس بات کو کہنے پر مجبور کرتی ہے کہ اب مذہبی مددوں کو ترجیح نہ دے کر مسلمانوں کو بنیادی مسائل کے حل کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہئے۔ کوشش یہ ہو کہ فرقہ وارانہ فسادات کے ہونے کو ہر ممکن روکا جائے، دہشت گردی کے آڑ میں پکڑ ے جانے والوں کے معاملات میں صرف کورٹ کا سہارا لیں اور یہ ثابت کرتے جائیں کہ بے قصوروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور اُمید رکھیں کہ ایک نہ ایک دن ہمارے ملک میں بھی کوئی ’’ ایڈورڈ اسنوڈین‘‘ پیدا ہوگا جو سرکار کے اب تک کہ سارے خفیہ پلانوں کاپردہ فاش کر عوام کو چونکا دے گا۔ ہمیں صرف روزی ، روٹی ، تعلیم ، مہنگائی ، بے روزگاری و بد عنوانیت جیسے مددوں پر روڈ پرآنا چاہئے جس میں پچھڑے ، دلت وغریب غرباء ، بھی آپ کے ساتھ آئینگے اور ہندوستانی سماج کی سوچ میں بدلاؤآئیگا۔ پھر اسی حساب سے سیاسی جماعتوں کا عروج و زوال ہوگا اور ایسی حکومتیں بنے گی جو ملک کو پھر سے ’’ سونے کی چڑیا‘‘ بنا سکے۔ آمین 

«
»

کب تک لٹتے رہیں گے مذہبی منافرت کے ہاتھوں؟

بانجھ پن…….(Infertility)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے