مصرمیں انقلاب یا سمین سے میدان جنگ تک امریکی کردار

جمہوریت پھر کسی مریل چڑیا کی طرح پنجرے میں ہے ۔منتخب حکومت کوڑے دان میں اور منتخب صدر جیل میں معزول صدر محمد مرسی کی گرفتاری کے بعد مصراب تباہی کے دہانے پر ہے ۔ انقلاب کے بعد جمہوریت کی بحالی اور جمہوریت کا فوجی بغاوت سے خاتمہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مصرکی فوج کو اقتدار منہ لگ گیا ہے وردی پوش اقتدار سے دور رہنے کو تیارنہیں ۔فوج کو سیاسی گلیوں سے بیرکوں میں بھیجنے کا وہی حشر ہوگا جو محمد مرسی کا ہوا ہے جنہوں نے اخوان المسلمون کے پرچم تلے حکومت سازی کی اور جمہوریت کو نئی بلندی دینے کی کوشش کی مگر انجام سامنے ہے ۔فوج اقتدار میں ہے اور مرسی جیل میں ۔جنرل عبدالفتاح السیسی نگراں قائد کے طور پر مصر کی کمان سنبھالے ہوئے ہیں ۔محمد مرسی پر نئے اور سنگین مقدمے درج کیے جا رہے ہیں جن کے سبب سن اخوان المسلمون کے حامیوں نے حتمی جنگ لڑنے کے لئے مورچہ سنبھالا ہے ۔ خوفناک خانہ جنگی کی آہٹ کے ساتھ مصر عالم عرب میں شوزش زدہ ممالک کی صف میں جا کھڑا ہوا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ مصر جہاں فوج کے حامیوں اور اسلام پسندوں کے درمیان جنگ چل رہی ہے وہیں ایک طبقہ ایسا ہے جو ان دونوں کو نا پسند کرتا ہے اور ان کے طریق کار کو تاناشاہی مانتاہے ۔
3جولائی کوفوج نے بغاوت کی تھی اور محمد مرسی کو گرفتار کرکے حکومت کو برخاست کردیا تھا اس کے بعد سے مصر میں عوام سڑکوں پر ہیں ۔کہیں فوج کی حمایت تو کہیں مرکسی کی حمایت ۔26جولائی کو اخوان المسلمون کر گیا ہے ۔ کیونکہ اخوان المسلمون ملک کے جمہوری نظام میں رائے دہی کے بعد بر سراقتدار آئی تھی ۔ مرسی کے ایک حامی نے کہا کہ ہم دہشت گرد نہیں ۔ ہم کو دہشت گرد قرار دے کر فوج ایک خوفناک کھیل کھیل رہی ہے ۔آپ سب جانتے ہیں کہ اسلام پسند ہیں ۔
یہ فوج کے ہاتھوں اسلام پسندوں کا دوسرا قتل عام ہے ۔ اس سے قبل 8جولائی کو مشرقی قاہرہ کے فوجی کمپاؤنڈکے سامنے 51اسلام پسندوں کو گولی ماردی گئی تھی ۔جنرل السیسی نے اخوان المسلمون کو پیغام دیا تھا کہ سڑکوں کو خالی کردیں ۔اس کے لئے فوج نے قاہرہ کے آسمان پر ہیلی کا پٹراڑانے شروع کر دیتے تھے ۔خوف کا ماحول بنایا جا رہا تھا ۔مگر اخوان المسلمون کے لئے یہ آرپار کی جنگ ہے ۔ایک بڑی لڑائی ہے بقا کا مسئلہ ہے اس لئے اسلام پسند سڑکوں پر ڈٹے رہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب فوج نے ایک اور قتل عام کر دیا ۔
مصرمیں انقلاب یا سمین کا انجام دیکھ کر مغرب خوش ہے اور مشرق رو رہا ہے ۔ عجیب وغریب عالم ہے ۔دوسال قبل جس فوج کے خلاف عوام منظم تھے اب فوج کی واپسی پر کوئی جشن منا رہا ہے تو کوئی ماتم ۔مصرکا المیہ یہ ہے کہ ہر کوئی جلد بازی کا شکار ہے ۔محمد مرسی نے عوام کی حمایت سے اقتدار حاصل کیا توراتوں رات مصر کا کردار مزاج اور انداز بدلنے کی کو شش کی ۔ کبھی کوئی نیا قانون تو کبھی دستور میں ترمیم ۔مرسی کے مخالٖفوں کو ان کے فیصلوں کی بنیاد عوام کو یہ احساس دلانے کا موقع ملا کہ مرسی اب من مانی کر رہے ہیں ۔مرسی کی نیت اچھی تھی مگر طریقہ کار ایسا ہو گیا تھا کہ انہیں حسنی مبارک کے بعد ایک اور تانا شاہ کہا جانے لگا تھا ۔ مغرب ایک جانب مرسی کے ساتھ تھا تو دوسری جانب درپر دوان کی جڑیں کاٹ رہا تھا ۔مرسی نے بڑے فیصلے بہت جلد بازی میں لئے اور ایسا لگا کہ جمہوری طور پر منتخب کے باوجود مرسی جمہوری انداز کو نظرانداز کررہے ہیں ۔محمد مرسی کو نقصان ہوا اور ایک سال میں حکومت کا کام تمام ہوا کیونکہ جس فوج نے مرسی کے پر کترنے کے بعد بیرک میں بھیجاتھا وہ ایسا نہیں ہوا۔ مرسی کے حامی آرپار کی جنگ لڑنے کیلئے میدان میں ہیں اور قاہرہ سے سکندر یہ تک خون ہی خون ہے ۔لاشیں ہی لاشیں ہیں تشدد کا بازارگرم ہے۔سڑکوں پر کہرام ہے جس نے انقلاب کے بعد بغاوت کو بھی ٹیڑھی اکھیر بنا دیا ہے ۔
جمہوریت کا خون کرنے کے بعد اب فوج نے سابق صدر محمد مرسی پر قانون کا شکنجہ کسنے کی تیاری شروع کر دی ہے ۔فوج جانتی ہے ۔کہ اخوان المسلمون کے حامی محمد مرسی کے نام پر جان دے سکتے ہیں اور جان لے سکتے ہیں اب فوج نے مرسی پر 2011 انقلاب کے دوران حماس سے ساز باز کر کے پولیس پر حملے کرانے کے معاملے کو اٹھایا ہے ۔فوج کا دعویٰ ہے کہ انقلاب یا سمین کے دوران مرسی نے فلسطینی تنظیم حماس کو استعمال کیا تھا ۔اس اعلان کے بعد فوج نے مرسی کو قاہرہ کی نورا جیل میں منتقل کر دیا ہے ۔اسی خفیہ جیل میں سابق صدر حسنی مبارک بھی بند ہیں ۔فوج کا کہنا ہے کہ انقلاب کے دوران مرسی نے حماس کے ساتھ تال میل کر کے جیلوں میں بند اخوان لیڈران کو آزاد کرایا تھا اور حماس کو مصر پولیس پر حملے کرنے کی اجازت دی تھی ۔دراصل انقلاب کے بعد جب مرسی کی حکومت بنی اور پھر اخوان المسلمون کی حکمت سازی کے خلاف مظاہروں کا آغاز ہوا تو فوج کو دوبارہ عوام میں حمایت اور مقبولیت حاصل ہونے لگی تھی ۔پولیس نے جمعہ کو ہوئے مظاہرے کے دوران مصر کے پرچم کو مرسی مخالف مظاہرین کو دیا تاکہ اتحاد کا مظاہرہ ہوا ۔سوال یہ ہے کہ فوج نے مرسی پر جو الزامات عائد کئے ہیں وہ حکومت کے دوران کے نہیں ہے بلکہ انقلاب کے دوران بھڑکے تشددکے ہیں ۔مصرکی پولیس میں مرسی کے خلاف ناراضگی نے مخالفوں کو بہت ہمت اور حوصلہ دیا ۔یاد رہے کہ مصر میں وزارت داخلہ کی کمان پولیس کے ہاتھوں میں ہوتی ہے ۔مرسی کے حامیوں کے خلاف کاروائی سے قبل فوجی سربراد جنرل عبد الفقاح ا لسیسی نے قوم کے نام ایک خطاب میں کہا تھا کہ عوام مجھے اختیاردیں کہ میں دہشت گردی کا سامنا کر سکوں دراصل پیچھے ایک ماہ سے مصر کا میڈیا محمد مرسی اور اخوان المسلمون کو دہشت گرد قرار دے رہا تھا اور محمد مرسی نے تقریبا 7ٹی وی چینلزکو بند کرنے کا حکم دیا تھا جو جنرل السیسی کی حمایت کر رہے تھے ۔قاہرہ میں مرسی مخالف فوجیوں سے ہاتھ ملا رہے تھے ۔سلام کر رہے تھے ۔ایک شخص نے کہا کہ جنرل السیسی کہ نام میرا پیغام ہے کہ 30جون کو جوہوا وہ 1973ء کی اسرائیل جنگ سے بڑا کارنامہ تھا ۔فوج کا دوبارہ ظہور ہوا ہے جس سہرا آپ کے سر جاتا ہے ۔
اسلام پسندوں کو کچلنے کیلئے فوج پر جنون سوار ہے ۔فوج نے بربریت کی انتہا کر دی ہے ۔قاہرہ سے اسکندر یہ تک فوج کے نشانہ بازوں نے بلند عمارتوں سے مظاہرین کو چن چن کر مارا۔قاہرے کے لئے سنیچر کی صبح قیامت لے کر آئی تھی جب شہر کے اسپتال میں لاشوں اور زخمیوں کی بھر مار تھی ۔لوگوں کا کہنا ہے کہ فوج نے مظاہرین کو چن چن کر مارا نشانہ باز بلند عمارتوں سے اسلام پسندوں کو چڑیا کی طرح مار رہے تھے ۔ایک ہسپتال میں ڈاکٹر نے کہا کہ آج جو منظر تھا اس سے قبل کبھی نظر نہیں آیا تھا ۔ لاشوں کے ڈھیرلگ گئے تھے ۔ہمیں ہلنے کی جگہ بھی نہیں مل رہی تھی ۔ڈاکٹر کہہ رہے تھے کہ جو لاشیں آرہی ہیں وہ نشانہ باز ی کا شکار ہیں فوج نے اسلام پسندوں کا قتل عام کیا ہے لیکن اس کے باوجود اخوان المسلمون کے حامی سڑکوں پر ہیں کیونکہ یہ زندگی موت کی جنگ ہے جس کے سبب مصر کی خانہ جنگی ایک خوفناک شکل اختیار کر رکھی ہے ۔ 
سوال یہ ہے کہ مصر لہولہو ہونے میں امریکہ کا کردار کیا ہے ۔مبصرین اور ماہرین کہتے ہیں کہ11۔9 کا واقعہ صرف امریکہ میں دو عمارتوں کا گرنا نہیں تھا بلکہ اس سے پوری دنیا خاص طور پر مشرقی بلاک میں بڑے پیمانے سیاسی معاشی اکھاڑ پچھاڑ ہوئی۔ اس واقعے نے جہاں نیو ورلڈ آرڈ ر کو چیلنج کیا وہیں اس نے یونی پولر طاقت کو دنیا کے بڑے بڑے معدنی ذخائر پر قبضہ کر لینے کا موقعہ بھی فراہم کیا۔ اس سلسلے میں کئی کتب شائع ہوچکی ہیں اور مستقل ہورہی ہیں۔ 11۔9 سے لے کر آج تک دنیا بھر میں پیش آنے والے نمایاں واقعات پر اگرسرسری نظر ڈالی جائے تو ان میں سب سے پہلے 2001 ء میں 7 اکتوبر کو افغانستان میں طالبان حکومت کے ختم ہونے کا واقعہ پیش آتا ہے لیکن جنگ ابھی (2011 ء ) تک فیصلہ کن مرحلے تک داخل نہیں ہوئی 150گیارہ دسمبر کو چائنا WTOکی ممبر شیپ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے 150 2002 ء میں یکجہتی کی خوبصورت مثال قائم کرتے ہوئے 12 ممالک یورو کو بطور آفیشل کرنسی قبول کرتے ہیں ، اسی سال یو ان سکیورٹی کونسل دنیا کو بائیلاجیکل خطرناک جنگ سے محفوظ رکھنے کے لئے عراق میں اسلحہ کی انسپیکشن کے لئے قرار داد پاس کرتی ہے اور اس کو عملی جامہ پہنایا جاتا ہے، 2003 ء میں امریکہ عراق کے اندر اپنی فوجیں اتارتا ہے اور 13 دسمبر کو عراقی صدر صدام حسین کو قیدی بنا لیا جاتا ہے۔(عراق میں بائلاجیکال ہتھیاروں کی تلاش کے سلسلہ میں یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ وہاں پر اس طرح کے مہلک ہتھیار موجود ہی نہیں تھے)۔اسی سال اپریل میں امریکہ یورپی یونین ، ایشیا اور اقوام متحدہ مڈل ایسٹ کے لئے با قائدہ پیس پلین(peace plane) تیار کرتے ہیں جو اسرائیل اور فلسطین کو قابل قبول ہونے کے باوجود عمل کے وقت اسرائیل کی مخالفت کی وجہ سے وہ منصوبہ بے عمل رہ جاتا ہے۔ انڈیا ، پاکستان اور کشمیر میں مشترکہ فائر بندی پر رضامند ہوجاتے ہیں ، لیکن ابھی تک اس معاملے کا کوئی مستقل حل نہیں نکلا 150 2004 ء میں ناسا مارس پہنچنے میں کامیاب ہوتا ہے۔فلسطینی لیڈر ،یاسر عرفات طویل جد و جہد کے بعد آزادی فلسطین کی امید لئے گیارہ نومبر کو فرینچ ملٹری ہسپتال میں انتقال کرجاتے ہیں۔2006 ء میں پلوٹو سولر سسٹم میں دکھائی نہیں دیتا جس کو بنیاد بناتے ہوئے سائنسدان اسے سولر سسٹم سے خارج کردیتے ہیں۔2007ء میں پاکستانی سیاستدان بینظیر بھٹو کو اس کی ذہانت سے خوفزدہ قوتیں شہید کروا دیتے ہیں۔اقوام متحدہ ایران کی خودداری کو آزماتے ہوئے اس پر مزید پابندیاں عائد کردیتی ہے۔ مجموعی طور پر 11۔9 کے بعد 2010 ء تک آنے والی قدرتی آفات کو دیکھیں ،تو اس میں 2003 ء میں زلزلہ سے ایران میں 2004ء میں سونامی سے انڈونیشیا و سریلن کا میں 2005 ء میں زلزلہ سے پاکستان میں 2008ء میں سائکلوں سے میانمار میں 2010 ء میں برطانوی بحری تیل بردار جہاز کے ڈوبنے سے سمندری مخلوق میں زلزلے سے ہیٹی میں ، 2010ء میں پاکستان میں سیلاب سے آنے والی تباہی اور انسانی جانوں کا زیان یہ سب ایک طرف ضرور ہوا لیکن اس سلسلے میں رنگ ،نسل، جغرافیائی حدود ،مذہب سے بالاتر انسانیت کی بنیاد پر ہمدردی اور امدادی معاونت کی خوبصورت مثالیں بھی قائم ہوئیں۔ (2011ء) میں دیکھا جائے تیونس مصر اور لبیا میں ادھورے ادھورے انقلابات آتے ہیں۔یمن، اردن اور شام میں کشمکش جاری ہے۔نیوپارک میں عوام آکوپائڈ وال اسٹریٹ(occupied wall street) کی تحریک شروع کرتے ہیں جو بعد میں یوروپ اور ایشیا تک پھیل جاتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ(ماسکو میں بین الاقوامی لینن امن انعام کی پرشکوہ تقریب کے موقع پر کی جانے والی تقریر سے اقتباس)دنیا کی اس پوری سیاسی اور معاشی صورتحال و رویوں کے پیش نظر فیض صاحب کی تقریر سے اقتباس پیش خدمت ہے۔’’ انسانی عقل،سائنس اور صنعت کی بدولت اس منزل پر پہنچ چکی ہے کہ جس میں سب تن بخوبی پل سکتے ہیں اور سبھی جھولیاں بھر سکتے ہیں۔بہ شرطیکہ یہ قدرت کے بے بہا ذخائر پیداوار کے یہ بے انداز ہ خرمن ، بعض اجارہ داروں اور مخصوص طبقوں کی تسکین ہوس کے لئے نہیں ،بلکہ جملہ انسانوں کی بہبود کے لئے کام میں لائے جائیں، اور عقل، سائنس اور صنعت کی کل ایجادیں اور صلاحیتیں تخریب کے بجائے تعمیری منصوبوں میں صرف ہوں۔لیکن یہ جبھی ممکن ہے کہ انسانی معاشرے میں ان مقاصد سے مطابقت پیدا ہو اور انسانی معاشرے کے ڈھانچے بنائیں۔ہوس استحصال اور اجارہ داری کے بجائے انصاف، برابری، آزادی اور اجتماعی خوشحالی میں اٹھائی جائیں۔اب یہ ذہنی اور خیالی بات نہیں، عملی کام ہے۔اس عمل میں امن کی جد و جہداور آزادی کی حدیں آپس میں مل جاتی ہیں۔ اس لئے کہ امن کے دوست ،دشمن اور آزادی کے دوست اور دشمن ایک ہی قبیلے کے لوگ ایک ہی نوع کی قوتیں ہیں۔ ایک طرف وہ سامراجی قوتیں ہیں جن کے مفاد ،جن کے اجارے جبر و حسد کے بغیر قائم نہیں کرسکتے اور جنہیں ان اجارہ داروں کے تحفظ کے لئے پوری انسانیت کی بھینٹ بھی قبول ہے اور دوسری طرف وہ قوتیں ہیں جنہیں بنکوں اور کمپنیوں کی نسبت انسانوں کی جان زیادہ عزیز ہے۔جنہیں دوسروں پر حکم چلانے کے بجائے آپس میں ہاتھ بٹانے اور ساتھ مل کر کام کرنے میں زیادہ لطف آتا ہے۔سیاست و اخلاق،ادب اور فن،روزمرہ زندگی،غرض کئی محاذوں پر کئی صورتوں میں تعمیر اور تخریب انسان دوستی اور انسان دشمنی کی یہ چپقلش جاری ہے۔آزادی پسند اور امن پسند لوگوں کے لئے ان میں سے ہر محاذ اور ہر صورت پر توجہ دینا ضروری ۔

«
»

کب تک لٹتے رہیں گے مذہبی منافرت کے ہاتھوں؟

بانجھ پن…….(Infertility)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے