صلیبی انجام کی جانب بڑھتا اسرائیل

جس کی وجہ سے مختصر عرصے کے لیے اسرائیل میں ہواؤں کا رخ تبدیل ہو سکتا ہے۔ لیکن چونکہ اسرائیلی معاشرہ سکیولر اور مذہبی دونوں اعتبارات سے یہودی فاشسزم کی جانب بڑھتا جارہا ہے اس لیے نیتن یاھو اگلی اسرائیلی حکومت کی سربراہی کرنے کے لیے مکمل طور پر پر اعتماد ہیں۔نیتن یاھو کو امید ہے کہ اپنے دوسرے دورہ اقتدار میں وہ بڑے موثر انداز میں فلسطینی ریاست کے قیام کے باقی بچ رہنے والی امیدوں پر بھی پانی پھیر دیں گے۔ساتھ ہی ان کو اس بات کی بھی پوری امید ہے کہ امریکا کی ترجیحی اور فعال مدد کے ساتھ وہ صہیونی ریاست کو درپیش تمام اسٹریٹجک خطرات کا ازالہ کر لیں گے۔یقینی طور پر اسرائیل کے پرغرور وزیر اعظم بنجمن نیتن یاھو ایران کے ایٹمی پروگرام کو اپنے لیے ایک متوقع خطرہ قرار دیتے ہیں مگر ان کا یہ خوف صرف پروپیگنڈا کرنے اور اور بڑی حد تک بلاوجہ ہے۔ ایران بارہا اس بات کا اعلان کر چکا ہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام پرامن ہے اور اس کا ایٹمی ہتھیار بنانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ لیکن اس ضمن میں اگر ایرانی عہدیداران کے بیانات کو ذرہ بھر قابل اعتناء4 نہیں سمجھا جاتا تو دوسری جانب پوری دنیا میں صرف اسرائیل ہی ایک ایسا ملک ہے جس کو ایٹمی عدم پھیلاؤ کی نصیحت پورے زورو شور سے کی جا سکتی ہے۔یہ حقیقت سب کو معلوم ہے کہ اسرائیل کے پاس اس وقت بڑی تعداد میں ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ اسکے پاس اڑھائی سو سے تین سو تک نیوکلئیر وار ہیڈز ہیں۔ مزید برآں Yariho ICBM جیسے کئی ڈلیوری نظام بھی موجود ہیں۔لہذا ہر کسی کے ذہن میں یہ انتہائی معقول سوال جنم لیتا ہے کہ اگر اسرائیل کو ایمٹی اور دوسرے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار رکھنے کا حق حاصل ہے تو ایران کو کیوں نہیں؟ مصر کو کیوں نہیں؟ اور پھر سعودی عرب کو کیوں نہیں؟ یہ وہ سوال ہے جو کسی بھی انسان کے اندر پیدا ہوتا ہے اور وہ اس سوال کا ایماندارانہ جواب کا متلاشی رہتا ہے۔بدقسمتی سے مغربی دنیا کے سیاسی اور ذرائع ابلاغ کے حلقے اس انتہائی اہم اور برمحل سوال کا دیانتدارانہ جواب دینے کے حوالے سے ضروریبلا شبہ مغربی دنیا اگر ایماندار ہوتی تو مشرق وسطی کی تمام پارٹیوں سے ایٹمی ہتھیار نہ رکھنے کے معاہدے پر دستخط کرواتی۔ لیکن مغربی جبلی طور پر دوغلے واقع ہوئے ہیں وہ نازیوں جیسی خصلتیں رکھنے والی اسرائیلی ریاست کو تہران سے لیکر کاسابلانکا تک کے علاقے کی مطلق طاقت اور اس خطے میں بسنے والے تمام ممالک اور قوموں پر حکمران بنانا چاہتے ہیں۔
لیکن اس اسٹریٹجک دھوکہ دہی کو کسی صورت قبول کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی لمبے عرصے تک چلایا جا سکتا ہے۔ امت مسلمہ کا وقار، اس کی عزت اور خودمختاری کسی بھی صورت اس متنازع اور انتہائی نامعقول حکمت عملی کو تسلیم کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ اس بات میں ذرہ بھر شبہ نہیں ہے کہ اسرائیل عالمی برادری کو ایران یا کسی بھی دوسرے مسلمان ملک کے خلاف اکساتا رہے گا تاکہ خطے میں یہودی ریاست کے مدمقابل کوئی مسلمان ریاست کھڑی نہ ہوسکے۔
تاہم یہ بھی اتنی ہی اہم بات ہے کہ خطے کی تمام مسلم ریاستوں کو کسی بھی صورت اسرائیل کے دباؤ میں نہیں آتا۔ یہ دباؤ چاہے معاشی، مالیاتی ہو اور چاہے فوجی ہو اسلامی ملکوں کے لیے اپنی خودمختاری برقرار رکھنا انتہائی ضروری ہے۔
کچھ بھی ہو اسرائیل کمزور ہمسایوں کی عزت نہیں کرتا البتہ وہ کمزور شکار کو اکیلا چھوڑ دیتا ہے۔ اس خطے کے مسلم حکمرانوں کو دو میں سے ایک راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ یا تو انہیں اپنے ملکوں میں خودمختار اعلی اختیارات کے حامل حکمران بننا ہوگا یا پھر انہیں ایک ایسے یہودی ہمسائے کا غلام بننا ہوگا جو تمام غیر یہودیوں کو غیر معیاری انسان اور یہودی آقاؤں کی خدمتگار سمجھتا ہے۔
اسرائیل کا بڑھتا غرور
یہ بات سب کو تسلیم ہوتی جارہی ہے کہ اسرائیلی عوام آئندہ انتخابات میں اپنے ووٹوں کے ذریعے حالیہ حکومت سے بھی زیادہ انتہاء4 پسند حکومت تشکیل دیگی۔ اس طرح کی حکومت سے یہی توقع ہیکہ وہ ایران کے معاملے میں اپنے موقف کو مزید ا?گے بڑھائے گی۔ مسلمانوں کے تیسرے مقدس ترین مقام مسجد اقصی کے خلاف اس کی اشتعال انگیزیاں بھی زیادہ ہونگی۔ جس کے بعد عرب۔ اسرائیل تنازع میں انتہائی شدت آجائے گی۔مزید برآں نئی اسرائیلی حکومت تمام مقبوضہ علاقوں بالخصوص مشرقی القدس میں یہودی بستیوں کی تعمیر نہ صرف جاری رکھے گی بلکہ اس میں تیزی لائے گی۔ یہ بات بھی عیاں ہے کہ اسرائیل کی ان سب حرکات کی وجہ سے اسرائیل کے ہمسایے میں ایک خودمختار فلسطینی ریاست بالخصوص مشرقی القدس کو اس ریاست کا دارالخلافہ بنانے کی تمام امیدیں مکمل طور پر ختم ہوجائیں گی۔بلاشبہ اسرائیل ایک کمزور، لڑکھڑاتی اور غیر منظم فلسطینی ریاست کی قیادت پر پہلے سے طے شدہ منصوبہ تھوپنے اور اس منصوبے کو قبول کرنے کا دباؤ بڑھائے گا۔ تاہم فلسطینی قیادت کو اپنے عوام کے دباؤ پر اسرائیل کے اس پہلے سے طے شدہ پروگرام کو قبول کرنے سے انکار کرنا پڑے گا۔
اس موقع پر فلسطینی قیادت غالبا واشنگٹن اور لندن سے اپیل کریگی کہ وہ اسرائیل کے اس بڑھتے غرور اور حکمرانی کی خو پر کنٹرول کرنے میں مدد کرے۔ لیکن اس اہم موقع پر واشنگٹن، جو خود دراصل ایک مختلف قسم کے اسرائیلی قبضے میں ہے جس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ اس کے تمام سیاستدان اسرائیل کی پشت پناہی کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں، اس حالت میں نہیں ہوگا کہ وہ کسی بھی لائحہ عمل کے لیے اسرائیل پر کسی قسم کا دباؤ ڈال سکے۔
امریکا میں یہودی رابر بیرنز اتنے طاقتور اور بااثر ہیں کہ کوئی بھی امریکی رہنما اسرائیلی حکمرانوں کے سامنے سر اٹھا اور ا?نکھوں میں ا?نکھیں ڈال کر یہ کہنے کے قابل نہیں کہ ’’بس بہت ہوگیا‘‘
صلیبی انجام
فلسطین۔ اسرائیل امن عمل جو پہلے ہی انتہائی کمزور ہے کے اس خوفناک مقدر سے ہی عرب اسرائیل تنازع ایک ایسی شکل اختیار کر جائے گا جو بل کلنٹن، ہیلری کلنٹن اور کنڈولیزا رائس کی تجاویز کے بالکل برعکس اور ان سب کے لیے مایوس کن ہوگا۔ اس سب کے بعد ثابت ہوجائے گا کہ اسرائیل کیساتھ قیام امن کے شرطیں لگانے والے خوابوں کی دنیا میں رہتے تھے۔
آخر کار اسرائیل کو ان حالات کا سامنا کرنا پڑے گا جہاں پر یہودی اقلیت جو انتہائی طاقتور طاقت ور بھی ہوگی کو ایک غیر یہودی اکثریت کے اوپر حکومت کرے گی اور ان پر مظالم ڈھائے گی۔ درحقیقت لازمی فلسطین یعنی دریائے اردن اور بحیرہ روم کا درمیانی حصے میں یہودی پہلے ہی اقلیت میں ہیں۔ اس بات کا اعتراف اسرائیلی روزنامے ’’ھارٹز‘‘ کے مطابق صہیونی عہدیدار بھی کر چکے ہیں۔
یہ کہنے کی بھی ضرورت نہیں کہ مقبوضہ فلسطین میں یہودیوں کی بطور اقلیتی ا?بادی حیثیت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پختہ ہوتی جارہی ہے۔ اس کی وجہ ایک جانب فلسطینیوں کی ا?بادی کی شرح میں اضافے کی رفتار ہے تو دوسری جانب یہودیوں کی اسرائیل کی جانب ہجرت کی شرح میں کمی ہے۔ اس دلخراش حقیقت کو مقابلہ کرنے کے لیے اسرائیل صہیونیت کو زندہ رکھنے کے لیے نسلی تعصب اور نسل کشی کی انتہائی خطرناک صورتوں کو قبول کرلے گا۔
لیکن نسل کشی کو طویل عرصے تک پالیسی بنا کر نہیں رکھا جا سکتا کیونکہ اس کی شدید اخلاقی اور سیاسی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ چنانچہ اسرائیل کے اس رویے کی وجہ سے خود اسرائیل کے لیے انتہائی خطرناک مشکلات کھڑی ہوجائیں گی، اس کی معیشت تباہی کے دھانے پر پہنچنے کے ساتھ ساتھ اس کا اخلاقیات کا ڈھانچہ تباہ ہو جائیگا۔
بالآخر اسرائیل کو یا تو دریائے اردن سے لیکر بحیرہ روم تک ایک دو قومی ریاست تسلیم کرنا ہوگی یا اسے علاقے کے کروڑو مسلمانوں کے ساتھ کھلا کھلا تنازع اور جنگ کو قبول کرنا ہوگا۔
اس بات میں شک و شبے کی گنجائش باقی نہیں رہی کہ اسرائیل شکست کے راستے پر رواں دواں ہیں۔ جغرافیائی اور تاریخی حقائق یقینی طور پر صہیونی عزائم کے خلاف کھڑے ہیں۔ یاد رہے صلیبیوں نے بھی فلسطین اور دنیا کے دیگر خطوں میں اپنی شہنشاہیتیں اور ریاستیں قائم کی تھیں اور یہ ریاستیں اسرائیل کے وجود میں ا?نے کے عرصے سے بھی زیادہ دیر قائم رہی تھیں۔
لیکن آخر کار ان صلیبیوں کو اپنے انجام کو پہنچنا پڑا کیونکہ صلیبی بھی نو ا?بادیاتی خوابوں اور مشرق وسطی کے آبادیاتی و زمینی حقائق کے مابین پائے جانے والے بنیادی اختلافات کو سمجھنے سے قاصر رہے تھے۔

«
»

مر اعشق بھی کہانی ،تر ا حسن بھی فسانہ

پیرس حملہ : امن عالم کے لئے ٹھوس لائحہ عمل کی ضرورت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے