سوشل سائٹس کے ذریعے مذہبی عناد پرستی و اشتعال انگیزی کا بڑھتا ہوا رجحان

اور اس کے ذریعے برائی اور بے حیائی کو فروغ دینے کے لیے استعمال کیا، تاکہ نوجوان نسل کے اخلاق کا جنازہ نکال لیا جائے۔ نوجوان نسل جو نہایت جذباتی اور یک طرفہ سوچ کی حامل ہوتی ہے اس کے ذہنوں کو سوشل میڈیا نے مذہبی ،ذاتی و سیاسی انتہا پسندی کا گھر بنا دیا ہے۔ ایک سروے کے مطابق روزانہ کئی لوگ سیاسی ومسلکی اور دیگر پوسٹ پر بحث کی وجہ سے اپنے کئی عزیز دوست کھو بیٹھتے ہیں۔ بے تکی بحث، تکرار اور لڑائی اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ بعض اوقات گہرے دوست بھی ایک دوسرے کی شکل نہیں دیکھنا چاہتے ،دنیا بھر میں کوئی بھی دہشت گردی کی واردات ہو، سیاسی تکرار یا پھر سیاسی جماعتوں کے حامیوں کے درمیان سوشل میڈیا پر چھڑنے والی جنگ ہو، یا مسلکی بحث و مباحثہ پر ہمیں ایسی تصاویر، پوسٹ اورا سٹیٹس دیکھنے کو ملتے ہیں جو نہایت بیوقوفانہ، یک طرفہ سوچ کی عکاسی کر رہے ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے ایسی ایسی پوسٹ بنائی جاتی ہیں جو اخلاقی حدود سے بھی تجاوز کر جاتی ہیں۔ اس سب میں کمال ہے سوشل میڈیا کے بے جا استعمال پر۔۔سیاسی طور پر شعور نہ رکھنے والے اور غیر سنجیدہ لوگ بھی حالات و و اقعات پر ایسے تبصرے کرتے ہیں جو سنجیدہ اور باشعور لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتے ہیں۔سوشل میڈیا نے جہاں لوگوں کو بہت ساری معلومات اور شعور فراہم کیا ہے وہیں اس نے ہمیں سیاسی اور غیر سیاسی طور پر انتہا پسند بنا دیا ہے اور اس کے نتیجے میں ہمیں نوجوان نسل میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی ملتی ہے جو عدم برداشت کا شکار ہیں، وہ اختلاف رائے کو برداشت نہیں کر پاتے اور دوسروں کے ساتھ ساتھ اپنا نقصان بھی کرتے ہیں۔ فیس بک اب ایسے لوگوں کیلئے میزبان بن گئی ہے جو لوگوں کے جذبات اور نظریات کو انتہا کی حد تک بڑھا دیتی ہے۔ایک سروے کے مطابق پوری دنیا میں صرف ۱۰فیصد افراد انٹرنیٹ کا صحیح استعمال کرتے ہیں، باقی ۹۰فیصد افراد اسکو تحریب کاری اشتعال انگیزی مذہبی عناد پرستی جنسی بے راہ روی فحاشی ذہنی تسکین اور کھیل تماشے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔اگر دوسری جانب دیکھاجائے سوشل میڈیا ایک دوسرے کی ضرورت بن چکاہے، مثبت استعمال سے اکثر لوگ ان سے اچھے خاصے فوائد حاصل کررہے ہیں،مگر دوسری جانب سوشل میڈیاکے بارے میں ایک رپورٹ سامنے آئی ہے کہ آن لائن نفرت انگیزی کے رحجان میں خطرناک اضافہ ہوا ہے ، سائبر اسپیس سے متعلق ایک سروے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک میں لوگوں کے مذہب، نسل اور جنس کی نبیاد پر نفرت انگیز مواد کا نشانہ بنانے کا رحجان خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے، ایک سروے میں پیش کئیے جانے والے اعداد وشمار کے مطابقملک کی سائبر اسپیس انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد خطرناک حد کو چھورہاہے ،جس سے معاشرے میں کئی قسم کے خطرات پیدا ہورہے ہیں، تحقیقاتی سروے کے مطابق انٹر نیٹ پرلوگوں کو ، مذہب ، قومیت ، نسل، جنس کی بنیاد پر نفرت انگیزروئیے کا نشانہ بنایاجا رہا ہے ۔اس تحقیقاتی سروے کا جائزہ لیاجائے تو واقعی سوشل سائٹس پر ایسے شر انگیز اور فساد پرپا کرنے والا مواد دیکھنے کو ملتاہے ، اس کے ذریعے سماجی رابطوں کے ویب سائیٹس پر اشتعال انگیزی کو فروغ مل رہا ہے جس کا نمونہ آئے دن دیکھنے کو مل رہا ہے،اور آن لائن نفرت انگیزی کے رحجان میں خطرناک اضافہ بھی ہو رہا ہے، اب یہ ہم پر انحصار کرتا ہے کہ ہر ایک سوشل میڈیاکو کس طرح استعمال کرتا ہے۔کوئی بھی چیز اچھی یا بْری نہیں ہوتی بلکہ اْس کا استعمال اْسے اچھے یا بْرے سے تعبیر کرتا ہے۔ ہمارے ہاں روزمرہ کی گھریلو زندگی میں اِن چیزوں کے استعمال کی بہت سی مثالیں موجود ہیں مثلاً ماچس چھری قینچی تیزاب، آئل وغیرہ۔ یہ چند ایسی چیزیں ہیں جن سے ہمارا واسطہ روزانہ ہی کسی نہ کسی صورت میں پڑتا ہے اور اِن کے تخریب کاری اور غلط استعمال کے اثرات بھی ہمیں روزانہ خبروں اور اخباروں میں پڑھنے اور دیکھنے کو ملتے ہیں۔اسی طرح انٹر نیٹ کے سوشل سائٹس میں لوگوں کے مذہب،نسل،ذات،جنس کی بنیاد پرنفرت انگیز موادکا نشانہ بنانے کا رجحان خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ اس نازک مسئلے سے نمٹنے کی ذمہ داری والدین، اساتذہ، اور بحیثیتِ مجموعی سارے معاشرے پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی مستقبل کی نسل کو اخلاقی اور معاشرتی انحطاط کے گہرے گڑھے میں گرنے سے بچانے کے لیے کس حد تک سنجیدگی اور عملی سرگرمی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

«
»

پیرس میں جمع ہونے والے عالمی راہنما

بعثت رسول سے قبل عرب کے حالات کا اجمالی جائزہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے