یورپی سماج کی کشمکش بھی اجاگر کرتا ہے پیر س کا المیہ

اکثر اسلام اور مسلمانوں پر ان کے مذہب کی تنقید بر داشت نہ کرنے کاالزام لگایا جاتاہے حالانکہ یہ بالکل غلط اور حقائق سے کوسوں دور الزام ہے ۔ اگر اردو اور فارسی ادب خصوصاً شاعری کا مطالعہ کیا جائے تو اللہ اور ملا ( مذہبی شخصیات) کو سب سے زیادہ نشانہ بنایا گیاہے ہاں مسلمانوں اور حضور ؐ کے درمیان ایک ایسا جذباتی رشتہ ہے جس کی کوئی وجہ اور تفسیر بیان نہیں کی جاسکتی اور مسلمان آپ کی شان میں کوئی گستاخی نہیں بر داشت کرپاتا یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی بھی نہیں ہے اور یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی اوریہ بھی جانتے ہوئے کہ محمدؐ کی تصویر تک نہیں بنائی جاتی اگر کوئی انہیں بے ہودہ انداز میں کارٹون کے ذریعہ پیش کرے تو اس پر عام مسلمانوں کا چراغ پا ہونا لازمی ہے لیکن غصہ اور جوش میں ہوش کھونے کو حق بجانب نہیں قرار دیا جاسکتا ایسے کارٹونوں وغیرہ کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جانی چاہئے یا بائیکاٹ کیا جانا چاہئے نہ کہ قتل وغارت گری شروع کردی جائے ۔ حضور کی روح پاک کو اس کارٹون سے کوئی چوٹ نہیں پہنچی ہوگی لیکن قتل عام نے ان کی روح کو ضرور بے چین کردیا ہوگا۔
فرانس میں دو دن سے جاری شدت پسند حملوں کا سلسلہ تین حملہ آوروں کی ہلاکت کے ساتھ ختم ہو گیا ہے۔ ہلاک ہونے والوں میں وہ دو بھائی بھی شامل ہیں جن پر ’چارلی ایبڈو میگزین کے دفتر پر حملہ کرنے کا شبہہ ہے‘۔
پولیس کے مطابق شریف اور سعید کواچی نام کے ان دو بھائیوں نے ہی پیرس میں ’چاری ایبڈو‘ میگزین کے دفتر پر حملہ کرکے 12 افراد کو ہلاک کیا تھا۔ بعد میں انھوں نے شہر کے شمالی علاقے میں ایک عمارت میں کچھ لوگوں کو یرغمال بنایا اور پولیس کارروائی میں موت کے گھاٹ اتار دئے گئے 32 سالہ شریف کو 2008 میں جیل ہوئی تھی اور پولیس انھیں طویل عرصے سے شدت پسند اسلامی سرگرمیوں کے لیے جانتی تھی۔
شریف کو ابو اسین کے نام سے بھی جانا جاتا تھا اور وہ اس نیٹ ورک سے منسلک تھے جو عراق میں القاعدہ کے لیے جہادی فراہم کرنے کا کام کرتا ہے۔شریف فرانس کے مغربی شہر رینیس کے یتیم خانے میں پلابڑھا جہاں اس نے ایک فٹنس کوچ کے طور پر تربیت حاصل کی تھی۔ بعد میں وہ اپنے بڑے بھائی کے ساتھ رہنے لگے اور پیزا ڈلیوری بوائے کے طور پر کام کرتے تھے۔پولیس 2005 میں انھیں اس وقت حراست میں لیا تھا جب وہ شام جانے والے تھے۔اس وقت عراق میں امریکی فوج کے خلاف جہادیوں کی بھرتی کا یہی واحد راستہ تھا۔فرانسیسی اخبار ’لی مونڈ‘ کی رپورٹ کے مطابق شریف کو جنوری 2005 سے 2006 تک جیل میں رکھا گیا تھا جس دوران وہ پہلی بار جمال بیغال کے رابطے میں آئے۔بیغال کو پیرس میں امریکی سفارت خانے پر بم نصب کرنے کی منصوبہ بندی کی وجہ سے 10 سال کی سزا ہوئی تھی۔
2008 میں شریف کو شدت پسندوں کو عراق بھیجنے کے معاملے میں تین سال کی سزا ہوئی تھی لیکن ان کی 18 ماہ کی سزا منسوخ ہو گئی تھی۔ان کے پڑوسی ایرک بیڈ انھیں ’اچھا، شائستہ، احباب پرست اور صاف ستھرا رہنے والا‘ بتاتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’سب سے اہم بات یہ تھی کہ وہ بزرگ اور لاچار لوگوں کی ہمیشہ مدد کرتا تھا۔‘انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’شریف پرسکون فطرت والے شخص تھے۔ وہ جارح یا جوشیلے بنیاد پرست نہیں تھے۔‘
یہاں ایک سوال فطری طور سے اٹھ رہاہے کہ اس ذہنیت اور سوچ سمجھ والے عناصر دہشت گردی جیسی بہیمانہ حرکتوں میں کیوں ملوث ہوجاتے ہیں بنگلور کے جس لڑکے کو آئی ایس آئی ایس کے لئے کام کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا وہ بھی اعلی تعلیم یافتہ ہے ۔ کیا ان دہشت گردوں کے اس فرضی اور غیر اسلامی جہاد کے پیغامات میں وہ اثر ہے جو ان نوجوانوں کو اس طرف راغب کرتاہے کہ وہ جہاد کے صحیح معنی اور مفہوم سمجھے بغیر ان کی صفوں میں شامل ہوجاتاہے ۔ اس میں ایک بڑا فیکٹر وہ مظالم ضرور ہیں جو امریکا اور دیگر یورپی ملکوں نے عراق افغانستان وغیرہ میں دہشت گردی کیخلاف جنگ کے نام پر کئے ہیں اور جن کی جانب کانگریس کے سینئر لیڈر منی شنکر ایئر نے اپنے ایک بیان میں توجہ مبذول کرائی ہے حالانکہ ان کے اس بیان پر بی جے پی اور اس کی حامی میڈیا وٹی وی چینلوں نے ہنگامہ کھڑا کردیا ہے۔
دوسری جانب پیرس کے واقعہ سے مسلمانوں کو لے کر یورپ کے کئی ممالک اندرونی کشمکش بھی ابھر کر سامنے آرہی ہے وہاں کے کئی ملکوں میں مسلمانوں کی تعداد نہ صرف تیزی سے بڑھ رہی ہے بلکہ وہ زیادہ بنیاد پرست بھی ہورہے ہیں ۔ فرانس کو ہی لے لیں وہاں کی دوسری سب سے بڑی آبادی مسلمانوں کی ہے اور ملک کے 80فیصد رومن کیتھولک عیسائیوں کو یہ خوف مارے ڈال رہا ہے کہ کہیں حکومت اور انتظامیہ پر مسلمان حاوی نہ ہوجائیں پورپ کے معاشی حالات خصوصاً کساد بازاری سے بڑھی بے روز گاری کی وجہ سے نہ صرف فرانس بلکہ دوسرے ملکوں میں بھی غیر ملکیوں کے خلاف غصہ اور نفرت بڑھ رہی ہے جس سے دائیں بازو کے عناصر نو نازی نور جعت پسند اپنی پیٹھ بھی بڑھا رہے ہیں اور فطری طور سے ان کا نشانہ تارکین وطن مسلمان ہیں گزشتہ سال ایک رومن کیتھولک سر پھرے نے اندھا دھند گولیاں چلا کر درجنوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔خود فرانس میں نیشنل فرنٹ نام کی سیاسی جماعت مضبوط ہوتی جارہی ہے جو کھل کر مسلمانوں سے ووٹ دینے کا حق چھین لینے کی وکالت کرتی ہے ۔ یورپی یو نین کے الیکشن میں بھی دائیں بازو کی پارٹیوں کو اچھی کامیابی 
ملی ہے ۔ جرمنی میں نو نازی پھر سر ابھار رہے ہیں اور کھلم کھلا تارکین وطن خصوصاً مسلمانوں کو ملک سے نکال باہر کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ادھر مذکورہ اخبار ج سے عمومی طور سے دائیں بازو کا نہیں سمجھا جاتا اور جس نے سبھی مذاہب کو نشانہ بنایا ہے شان رسالت کی توہین والے کارٹونوں کو دوبارہ شائع کرکے آگ میں گھی ڈال دیا حالانکہ یہ کام اس نے پوری طور سے تجارتی نقطہ نظر سے کیا تھا کیونکہ دائیں بازو سے متاثر قارئین نے اسے بہت پسند کیا تھا ۔ مسلمان اس سے ناراض ہیں انہوں نے عدالتی چارہ جوئی بھی کی تھی لیکن اظہار رائے کی آزادی کی بنیاد پر مقدمہ خارج ہوگیا تھا ۔ چونکہ ان معاملات پر مسلمانوں اور دیگر اعتدال پسندوں نے خاموشی اختیار کرلی اس لئے مسلمانوں کی بے چینی اور فکر مندی کا شدت پسند عناصر فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ 
ادھر اظہار رائے کی آزادی محدود ہے یا لا محدود یہ بحث بھی عالمی سطح پر چھڑ گئی ہے ۔ زیادہ تر لوگ اسے لا محدود نہیں مانتے ان کا خیال ہے کہ عوام کے مذہبی جذبات کا لحاظ ضرور رکھا جانا چاہئے اور یہی مہذب سماج کا تقاضہ بھی ہے لا محدود آزادی صرف جنگل میں ممکن ہے جو جس کو چاہے مارے کھائے ۔ہاں مذہبی دکھاوے ڈھونگ اور بے ایمانی پر تنقید اور طنز حق بجانب سے مگر اونچ نیچ کا دھیان رکھتے ہوئے ۔دنیا بھر کے اعتدال پسند عناصر یہی بات کہہ رہے ہیں ۔

«
»

سنگھ پریوار کی ہٹلری کے خلاف نئی نسل کا اعلان جنگ

جدید اردو صحافت کے معمار کا انتقال

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے