’’ پی کے‘‘ پر واویلا کیوں۔۔۔؟

گذشتہ کئی ہفتوں سے ملک میں اس کا سلسلہ جاری ہے جب کہ یہ جس فرقے کو ملک دشمن اور ملک کے لئے خطرہ مانتے ہیں اس کی فرقے کی طرف سے کبھی ملک کو خطرہ لاحق ہی نہیں ہوا۔آزادی کے بعد سے جتنے بھی فسادات ہوئے تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو ان میں سے ایک بھی فساد اس مخصوص فرقے کی طرف سے شروع نہیں ہوا۔جب کہ اس مخصوص فرقے نے ہمیشہ ملک کے قانون و آئین کا احترام کیا ہے۔غرض یہ کہ یہ صرف اسی موقع میں تلاش میں رہتی ہیں کہ کس طرح ملک کا امن و چین کو بے چین کیا جائے۔اب کچھ نہیں ملا تو عامر خان کی حالیہ ریلیز فلم ’’ پی کے ‘‘ پر ہنگامہ کھڑا کیا جارہا ہے اور اس پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔جب کہ یہ فلم ریلیز ہو کے ایک ہفتہ ہوچکا ہے اور اس نے کئی سو کروڑ کا بزنس بھی کیا ہے اور باکس آفس پر سپر ہٹ ثابت ہوچکی ہے۔ان تنظیموں کا ماننا ہے کہ اس فلم میں ہندو دیوی دیوتاؤں کا مذاق اڑایا گیا ہے۔اسی طرح کی فلم ’’ او مائی گاڈ‘‘ بھی آچکی ہے۔اس فلم میں بھی پریش راول کے ذریعے یہ دکھانے کی کوشش کی گئی تھی کہ کس طرح مذہب کے ٹھیکیدار لوگوں کو بے وقوف بنا کر ان کے عقیدے اور آستھا کا فائدہ اٹھا کر اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔اس وقت تو کسی نے اس فلم کے خلاف کوئی اعتراض یا احتجاج نہیں کیا ۔حقیقت یہ ہے کہ اس فلم کی نمائش کے بعد بہت سے ہندوؤں کو احساس ہوا ہے کہ کس طرح انہیں یہ دھرم کے ٹھیکیدار الو بنا رہے ہیں۔
’’ پی کے‘‘ میں بھی ایسا کچھ بتایا گیا ہے۔خلائی مخلوق ’’ عامر خان‘‘ہندستان کی سر زمین پر اترتا ہے۔جس کے گلے میں ایک لاکٹ ہے جو اصل میں اس کا اپنے لوگوں سے سگنل کا ذریعہ ہے۔زمین پر اترتے ہی ایک شخص اس کا لاکٹ چھین کر بھاگ جاتا ہے۔جسے وہ دیوانہ وار تلاش کرتا ہے۔پھر اسے پتہ چلتا ہے کہ مندر میں جانے سے بھگوان اس کی مراد پوری کردیں گے،وہ ایک مندر میں جاتا ہے،تو اسے بتایا جاتا ہے کہ یہاں دوسرے مندر میں،پھر اسے بتایا جاتا ہے کہ فلاں درگاہ سے اس کی مراد پوری ہوگی یہاں تک کہ اسے گرجا گھر میں بھی بھیجا جاتا ہے۔اور ہر طرف سے اسے مایوسی ہاتھ لگتی۔دوسری طرف اس کی ملاقات ایک خود ساختہ بابا سے ہوتی ہے۔جو بھرے مجمع میں اپنے عقیدت مندوں کو وہی پی کے کا لاکٹ دکھا کر کہتا ہے کہ یہ شیو کی ڈفلی کا ٹوٹا ہوا حصہ ہے جسے شیو بھگوان نے خود اسے دیا ہے۔مگر عامر خان اس کا جھوٹ پکڑ لیتا ہے۔اس لئے کہ اسے دماغ پڑھنے کا ہنر آتاہے۔اس میں اس کی مدد ٹی وی کی ایک اینکر کرتی ہے۔جو اس کی صلاحیتوں کو سمجھ جاتی ہے۔اور شروع ہوتا ہے پی کے اور مذہب کے ٹھیکیداروں کی قلعی کھولنے کا کھیل۔پی کے کا کہنا ہوتا ہے کہ لوگ کس کس بھگوان کے پاس جائیں،بھگوان تو ایک ہے۔مگر یہ مذہب کے ٹھیکیداروں نے لوگوں کو گمراہ کرکے رکھا ہوا ہے۔غرض یہ کہ مذہب کے ٹھیکیداروں کے تئیں یہ ایک بہترین فلم ہے جسے عام لوگ بہت ہی شوق سے دیکھ رہے ہیں اور انہیں اس میں کوئی برائی نظر آرہی ہے تو ہندوؤں کی ان خود ساختہ تنظیموں کو اس میں کیا برائی نظر آرہی ہے۔جب کہ سنسر نے بھی صاف لفظوں میں کہہ دیا ہے کہ وہ فلم سے کسی منظر کی کاٹ چھانٹ نہیں کرے گی۔اور مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ نے بھی اس فلم کی جانچ کرنے سے صاف انکار کردیا ہے ۔ دوسری طرف یو پی حکومت نے اس فلم کو ٹیکس سے متشنیٰ قرار دے دیا ہے تو کیا یہ سب اس بات کی دلیل نہیں کہ فلم میں ایسا کچھ بھی نہیں جسے قابل اعتراض سمجھا جائے۔یا کیا یہ لوگ مذہبی نہیں کیا یہ ہندو نہیں ؟؟۔ ان تنظیموں کی شہہ پر کئی سنیما گھروں میں توڑ پھوڑ بھی کی گئی۔دراصل اس فلم کے خلاف احتجاج کرنے والی تنظیموں کو ٹھونگی باباؤں کی کھلتی پول پر اعتراض تو ہے ہی لیکن اس احتجاج کی اصل اور اہم وجہ ہندستانی ٹی وی اینکر اور پاکستانی نوجوان کا معاشقہ ہے ۔اس لئے کہ اب ہندی فلموں میں مسلم لڑکی اور غیر مسلم لڑکے کا رومانس ہی دکھایا جاتا رہا۔جس پر مسلم طبقہ نے اعتراض کیا تو ان فرقہ پرستوں نے اس کے برعکس اس رومانس کو جائز قرار دے کر مسلمانوں کے اعتراض کو دبانے کی کوشش کی۔اس کے علاوہ اس فلم کا وہ منظر بھی چونکانے والا ہے۔جب خود ساختہ بابا اس بات کی پیشن گوئی کرتا ہے کہ وہ پاکستانی نوجوان اس لڑکی کو دھوکا دے کر غائب ہوجائے گا۔اور ہوتا بھی وہی ہے۔لیکن فلم کے آخر میں جب عامر اس بابا کو غلط ثابت کرنے کے چیلنج کرتا ہے تو وہ بابا اپنی اسی پیشن گوئی کا حوالہ دے کر اس اینکر سے پوچھتا ہے کہ کیا اس کی پیشن گوئی غلط تھی۔تب اس اینکر کا باس اس سے پاکستان فون لگانے کے لئے کہتا ہے اور اتفاق سے فون لگ جاتا ہے تب پتہ چلتا ہے کہ ایک غلط فہمی کی بنا پر لڑکی اور لڑکے میں جدائی ہوگئی تھی اور وہ پاکستانی لڑکا اب بھی اسے چاہتا ہے۔اس منظر پر بابا کے چہرے پر آنے والے اتار چڑھاؤ پر شائقین فلم سیٹیاں اور تالیاں بجاتے ہیں۔ظاہر ہے کہ ان میں سبھی طبقے کے لوگ شامل ہونگے۔ان ہندو تنظیموں کا احتجاج اسی پر ہے کہ ایک تو ہندو لڑکی کا معاشقہ مسلم لڑکے سے دکھایا گیا وہ بھی پاکستانی لڑکے سے اور اس ستم بالائے ستم یہ کہ دونوں کو آخر میں ملا بھی دیا گیا۔اس پر ڈائرکٹر کا ظلم یہ کہ یہ تمام کام عامر خان سے کروایا گیا،جو کہ ایک مسلم اداکار ہے۔سوال کیا جاسکتا ہے کہ اگر فلم میں کوئی غیر مسلم اداکار ہوتا تو کیا تب بھی یہ تنظیمیں اسی طرح اپنی ناراضگی کا اظہار کرتیں۔۔۔؟فلم ’’ او مائی گاڈ‘‘ کے وقت انہوں نے خاموشی کیوں اختیار کی۔کیا اس لئے کہ فلم میں اکشے کمار اور پریش راول تھے۔۔۔؟
فلم سے باہر نکل کر اگر سماجی حقیقت کی بات کریں تو اب تک کتنے ہی باباؤں کے چہرے سے نقاب اتر چکی ہے۔جن کے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں بھکت تھے جن میں غریب اور لکھپتی سبھی تھے۔یہ سبھی ان سے سچا عقیدہ رکھتے تھے۔ان کے بتائے ہو راستے پر چلتے تھے۔اس کے باوجود ان باباؤں اور سادھو سنتوں نے اپنی کارستانی سے ان کے عقیدے کی دیوار ایک جھٹکے میں توڑ دی۔اس وقت بھی ان تنظیمیوں نے ان کے بچاؤ اور ان کے گناہوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ۔
ان تمام حالات اور واقعات نے اب عام لوگوں کی آنکھیں کھول دیں ہیں اور وہ ان باباؤں کے معاملے میں ہوشیار ہوچکے ہیں۔ایسے میں باباؤں کی دکان بند ہونا فطری ہے۔اسی لئے ان تنظیموں کی آڑ میں یہ باباؤں کی ہی سازش ہوسکتی ہے اور وہ فلموں میں دکھائی جانے والی سچائیوں کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کررہے ہیں۔لیکن اس سے کیا ان کی حقیقت چھپ سکے گی۔فلمیں تو سماج کا آئینہ ہوتی ہیں۔اور فلمیں وہی سب کچھ دکھا رہی ہیں جو معاشرے میں ہورہا ہے۔ان فلمسازوں کے حوصلے اور ہمت کی داد بھی دینی چاہیئے کہ انہوں نے اب اپنی سوچ میں تبدیلی لائی ہے اور فلموں کو بھی ناچ و رنگ کا ذریعہ نہ بنا کر سچائیوں کا آئینہ بھی بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔کیا یہ تنظیمیں اس حقیقت سے لاعلم ہیں کہ ان باباؤں کے آشرموں میں بھکتی اور آستھا کے نام پر کیا کیا ہورہا ہے۔؟دولت مندوں سے روپے اینٹھے جاتے ہیں اور غریب و بے بس گھرانوں کی لڑکیوں کی عصمتیں تار تار کرکے اپنی عیاشی کی تشنگی دور کی جاتی ہے۔اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود اگر یہ تنظیمیں پھر بھی ان سچائیوں سے چشم پوشی کرتی ہیں تو یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ ان گناہوں میں یہ تنظیمیں بھی شریک کار ہیں اور ان کا بھی کوئی دھرم یا مذہب نہیں ہے۔انہیں صرف اپنا مفاد پیارا ہے ۔

«
»

سنگھ پریوار کی ہٹلری کے خلاف نئی نسل کا اعلان جنگ

جدید اردو صحافت کے معمار کا انتقال

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے