سرزمینِ بھٹکل سے اُمید کی ایک کرن

اسی طرح مذہبی،سماجی و تعلیمی بیداری پیدا کرنے کی غرض سے جن جن علاقوں کا دورہ کیا،وہاں مسلمانوں کو ایک خاص قسم کی کس مپرسی کی حالت میں پایا۔جہالت،ناخواندگی،مفلسی،غریبی،باہمی نفاق،عدمِ اتحاد،یہ وہ مسائل تھے جن سے ہر جگہ کے مسلمان جکڑے نظرآئے لیکن گزرتاہوا وقت ان کے مسائل کو حل نہ کرسکا بلکہ اس کے برعکس ان میں اضافہ ضرور ہوتا گیا۔حکومتیں بھی آتی جاتی رہیں،بدلتی رہیں لیکن مسلمانوں کی حالت زار میں تبدیلی نہیں آئی۔ان کے حالات دن بدن دگر گوں ہوتے گئے۔حالات میں بہتری لانے کی کوشش نہ حکومتوں نے کی اور نہ خود مسلمانوں نے اسی دوران ۹؍مارچ۲۰۰۵ء کو دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس،جسٹس راجندرسچر کی سربراہی میں وزیر اعظم کی اعلیٰ سطحی کمیٹی نے کم و بیش۲۰،۲۱مہینوں کے عمیق مطالعے کے بعد جب ۳۰؍نومبر۲۰۰۶ء کو اپنی رپورٹ پیش کی اور اس میں مسلمانوں کے حالات سے متعلق حقائق پیش کیے تو یہ تصویر دنیا کے نگاہوں کے سامنے بھی آگئی۔یہ حقائق دنیا کے لیے حیران کن تھے لیکن میں نے ان کا ازخود براہِ راست مشاہدہ کیا تھا۔رپورٹ نے یہ انکشاف کیا تھا کہ چارفیصدسے بھی کم مسلمان گریجویشن تک کی تعلیم حاصل کر پاتے ہیں،مسلم مخالف ہندوتوا تنظیموں کے جھوٹے پروپیگنڈے کے بر عکس صرف چار فیصدمسلمان ہی مدارس میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اس کی بھی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلم آبادی والے زیادہ تر علاقوں میں میلوں تک سرکاری پرائمری اسکول بھی نہیں ہوتے البتہ مدارس ہوتے ہیں جہاں والدین اپنے بچوں کو بھیجنے پر مجبور ہوتے ہیں۔اس کے بعدبھی غربت کی وجہ سے مسلم بچوں کا ڈراپ آؤٹ دیگر فرقوں کے مقابلے کہیں زیادہ ہوتا ہے کیوں کہ مفلس والدین اپنے بچوں کو چھوٹے موٹے کاموں میں لگادیتے ہیں۔۱۴؍فیصدمسلم آبادی کا سرکاری ملازمتوں میں تناسب۹ء۴فیصد اور سیکیورٹی ایجنسیوں میں محض۲ء۳فیصدتھا۔اور مغربی بنگال،آندھرا پردیش،گجرات،راجستھان،مدھیہ پردیش جیسی ریاستوں اور ۵۰؍ہزار سے دولاکھ آبادی والے شہروں اور قصبات میں مسلمانوں کا تناسب۵ء۲ فیصد اور ان کے سماجی اقتصادی اور تعلیمی حالات درجِ فہرست ذاتوں اور قبائل سے بھی بدتر تھے۔
آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کی یہ تصویرِ الم دیکھ دیکھ کر جو درد میں اپنے سینے میں سمیٹتارہا،اُس دردکو جلسوں اور محفلوں میں بیان کرتا رہا۔ملک کے مغرب سے لے کر مشرق تک اور شمال سے جنوب تک مسلمانوں کے کم و بیش ایک جیسے حالات تھے اور ان حالات کو مثبت تبدیلی کی راہ پر لانے کی جو تڑپ خود مسلمانوں میں پیدا ہونی چاہیے تھی اس کا مکمل طورپر فقدان مایوسی میں مزید اضافہ کردیتا تھا۔لیکن جیساکہ اسلام میں مایوسی کو کفرسے تعبیر کیاگیا ہے ،ہمیں مایوس ہونے کے بجائے ان راستوں کو تلاش کرنا ہوگا جو ہمیں پستی کے غارسے نکال کربلندیوں تک لے جاسکیں تاکہ ہماراشمار بھی زندہ قوموں میں ہوسکے۔
حال ہی میں مجھے ریاست کرناٹک کے شہر بھٹکل کے ایک معروف سماجی،سیاسی و فلاحی ادارے مجلسِ تنظیم و اصلاح کے صدسالہ جشن میں شرکت کا شرف حاصل ہوا۔جنوبی ریاست کے اس شہرنے اب تک ایسے بہت سے رجالِ کار پیدا کیے ہیں اوردینی و عصری علوم کے ترقی یافتہ اداروں کے علاوہ انسانی خدمت اور سماجی اصلاح کے ایسے مراکز قائم کیے ہیں،جن کی روشنی،تاریخ اور حصول یابیاں ہمیں بہت حوصلہ بخشتی ہیں۔حوصلے کی ان ہی کرنوں سے فیضیاب ہوکر،ان کے نقشِ قدم پر چل کر اگر چاہیں تو ملک کے وہ مسلما ن جوآج درج فہرست ذاتوں اور قبائل سے بھی بد تر ہیں،نہ صرف اپنی تقدیر بدل سکتے ہیں بلکہ دوسری اقوام کی تقدیر بدلنے کے لیے قائدانہ رول بھی ادا کرسکتے ہیں۔مجلسِ اصلاح و تنظیم نے اپنی۱۰۲؍سال کی فعال زندگی میں مسلمانوں کی سیاسی و سماجی رہنمائی اور ان کی فلاح و ترقی اور اتحاد و یکجہتی کے لیے جو کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں اور مسلمانوں کے ارتقا و سربلندی کا جو عملی ماڈل پیش کیا ہے، اس کا مشاہدہ کرکے مسلمانوں کے مستقبل کے حوالے سے نہ صرف میری مایوسی گھٹی،بلکہ یہ یقین بھی پیدا ہوا کہ انسانیت کی خدمت کرکے،تعلیم کے حصول کو اپنامقصد بناکر،اصلاحِ معاشرہ کے لیے ایمان دارانہ کوشش کرکے اور ملی اتحاد قائم کرکے دنیا بھر میں مسلمان اپنی تقدیر بدل سکتے ہیں اور سرخ رو ہوسکتے ہیں۔بھٹکل اورآس پاس کے علاقوں کے رفاہی ادارے مجلس اصلاح و تنظیم سے ہمیں حوصلے کی یہی کرن ملتی ہے جس نے انسانی خدمت اور ملی اتحاد کو اپنا وطیرہ بنایاہے۔
گجرات کے ہولناک زلزلے سے لے کر کشمیرکے حالیہ تباہ کن سیلاب تک اور سونامی طوفان سے لے کر بھاگل پور اور میرٹھ کے فرقہ وارانہ فسادات تک ہر موقع پر اس تنظیم نے قوم و مذہب کی تفریق کے بغیر متاثرہ خاندانوں کی خدمت کی ہے۔ لیکن اس تنظیم کا طرۂ امتیاز مقامی سطح پر مسلمانوں میں سیاسی بیداری پیدا کرنا اور سیاسی وزن پیدا کرنے کے لیے مسلمانوں میں اتحاد قائم کرناہے۔اس تنظیم کا سیاسی پینل گرام پنچایت سے لے کر ریاستی اسمبلی اور پارلیمانی انتخابات تک ہر موقع پرحالات کا جائزہ لیتے ہوئے حلقے کی تمام مسلم جماعتوں کے ساتھ صلاح ومشورے کے بعد ایک فیصلہ پر پہنچتاہے اور اس فیصلہ کو عملی جامہ پہناتے ہوئے اسے کامیاب بنانے کی کوشش کرتا ہے ۔تنظیم کے فیصلے کو تمام مسلمان قبول کرتے ہیں اور اسی کے مطابق عمل کرتے ہیں جس سے مسلم ووٹ منتشر نہیں ہوپاتے اور سیاسی پارٹیوں کو ان کے متحد ووٹوں کی اہمیت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔اس روشنی میں تصورکریں کہ اگر قومی سطح پر مسلمان متحدہوکر سیاسی فیصلے کرنے لگیں توسیاسی پارٹیاں خواب میں بھی ان کو حقیر اور بے وزن سمجھنے کی جرأت نہ کرسکیں گی۔مقامی سطح پر اس تنظیم کی ایک اور کامیاب کوشش کو رول ماڈل سمجھ کر مسلمان اسے قومی سطح پر نافذ کریں تو بھی حالات بدل سکتے ہیں۔یہ تنظیم اپنی سطح پربھرپور کوشش کرتی ہے کہ مسلمانوں کے شادی بیاہ، جائیداد، کاروبار اور لین دین سے متعلق تنازعات عدالتوں میں نہ جائیں،تاکہ وقت اور پیسہ دونوں بچایا جاسکے ۔بھٹکل کے لوگ جہاں کہیں بھی ہیں وہاں اس تنظیم کی شاخیں ہیں اورلوگوں کے باہمی تنازعات وہاں حل ہوجاتے ہیں۔اسی طرح مسلمانوں کے اجتماعی قانونی معاملات میں ان کی رہنمائی کرنا اور حسبِ ضرورت مقدمات کی پیروی کرنا اور مظلوم مسلمانوں کے مقدمات کے سلسلے میں قانونی امداد فراہم کرنا بھی اس تنظیم کا ایک لائقِ تقلید قدم رہاہے۔
نادارطلباء کی مدد،غریب خاندانوں کو راشن کی فراہمی،بیماروں کے لیے علاج کے اخراجات،شادی بیاہ کے لیے امداد،رو زگار کے لیے قرض،طبی کیمپ، قبرستان اور مساجد و مدارس کی دیکھ بھال جیسی معمول کی سرگرمیوں کے علاوہ بھٹکل کی یہ نمایندہ تنظیم نہ صرف مقامی پولیس و انتظامی افسران سے اپنے روابط استوار رکھے ہوئی ہے بلکہ موقع بموقع فرقہ ورانہ خیر سگالی اور بھائی چارگی کو بڑھاوادینے کی غرض سے غیر مسلم مذہبی پیشواؤں کومدعوکرکے ملے جلے پروگرام بھی منعقد کرتی رہتی ہے۔اس کا فائدہ یہ ہے کہ سرکاری محکموں کی طرف سے منعقد ہونے والے پروگراموں میں بھی تنظیم کو مدعوکیاجاتا ہے۔
عالمِ اسلام سے برادرانہ رشتے اوراس کے سکھ دکھ میں شرکت بھی اس ادارے کا خاصہ رہاہے۔گزشہ سال کے وسط میں جب اسرائیل غزہ کے نہتے بے قصور شہریوں پر اورمعصوم بچوں پر’دہشت گردی‘ختم کرنے کے لیے آسمان سے گولے بارود کی بارش کر رہاتھا، اس تنظیم نے نہ صرف اسرائیلی جارحیت اور درندگی کی مذمت کی بلکہ فلسطینیوں سے یکجہتی کا اظہار کرنے کے لیے اسرائیل کے خلاف مضبوطی سے احتجاج بھی کیا۔تنظیم کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ہزارہا لوگ تیز بارش کے باوجوداکٹھاہوئے اور انھوں نے مقامی انتظامی افسران کے توسط سے وزیر اعظم کو ایک میمورنڈم پیش کیا جس میں مسلمانوں کے جذبات کو ملحوظ رکھتے ہوئے اسرائیل سے سفارتی رشتے یکسر منقطع کرنے کا مطالبہ کیاگیاتھا۔
دیگر فرقوں کی نمایندہ شخصیات اس ادارے اور اس کے سربراہوں کے متعلق کیارائے رکھتی ہیں،اس کی بھی ایک مثال دیکھ لیجیے۔کرناٹک سے راجیہ سبھا کے ممبر بی کے ہری پرسادنے تنظیم کے سابق صدر مرحوم ایس ایم یحیٰ کے بارے میں ایک موقع پر کہاکہ’’ہمارے ملک کی سیاسی تاریخ میں بہت سے سیاست دانوں کے نام قابلِ ذکر ہیں لیکن میں نے مرحوم کے جیسا مخلص اور ایمان دار سیاست داں آج تک نہیں دیکھا۔میں سیاست میں انھیں اپنا آئیڈیل اور رول ماڈل مانتا ہوں‘‘۔تنظیم کے کاموں کی ستایش کرتے ہوئے انھوں نے کہا’’معاشرے اور ملک کی خدمت کرنا ایک بڑا کارنامہ ہے جسے قومی اور عالمی سطح پر نمایاں کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔
مجلسِ تنظیم و اصلاح کی کارگزاریاں واقعی لائقِ ستایش ہیں اور قابل تقلید بھی۔روشنی جہاں سے بھی ملے ،ہمیں اس کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔خاص کر ایسے وقت میں جب مسلمانوں کا سماجی، سیاسی، معاشی اور تعلیمی زوال اپنی انتہا پر ہو،ہمیں شدیدضرورت ہے کہ ہم زندہ قوموں کا شعاراپنائیں۔ہمارے پاس کامیابی کے ڈھیروں ماڈل موجودہیں، جن میں مجلسِ اصلاح و تنظیم بھی شامل ہے۔اگرہم آپس میں اتحاد قائم کرلیں،تعلیم کے حصول کو اپنے اور اپنی نسلوں پر فرض کرلیں اورانسانی خدمت کو اپنی شب و روز کی زندگی میں شامل کرلیں تو یقینی طورپر ہماری بے وقعتی دورہوسکتی ہے۔
(مضمون نگارممبرپارلیمنٹ اور آل انڈیاتعلیمی و ملی فاؤنڈیشن کے صدر ہیں)

«
»

سنگھ پریوار کی ہٹلری کے خلاف نئی نسل کا اعلان جنگ

جدید اردو صحافت کے معمار کا انتقال

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے