مکافاتِ عمل

واقفانِ حال کے مطابق اس بھاگ دوڑ کی وجہ یہ ہے کہ غداری کے مقدمے میں استغاثہ کی پوزیشن بے حدمضبوط ہے اس لئے پرویز مشرف اس مقدمے کواب الجھانااوردانستہ طورپرطول دیناچاہتے ہیں تاکہ اس دوران بیچ بچاؤ کی کوئی صورت نکالی جاسکے تاہم فی الحال فاسق کمانڈوکے ستارے گردش میں ہیں ۔ انہوں نے اپنانام ای سی ایل میں سے نکلوانے کیلئے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائرکی تھی۔۲۳دسمبرکوسندھ ہائی کورٹ نے اس درخواست پرفیصلہ سناتے ہوئے کہاکہ درخواست گزاراپنانام ای سی ایل میں سے نکلوانے کیلئے حکومت سے رابطہ کریں کیونکہ عدالت نے ان کانام ای سی ایل میں ڈالااورنہ ہی یہ معاملہ عدالت کے دائرہ کارمیں آتا ہے، متنازعہ بنانے کی کوشش کامیاب نہیں ہوسکی۔
واضح رہے کہ مشرف کی طرف سے اسلام آبادہائی کورٹ میں غداری کامقدمہ چلانے کیلئے خصوصی عدالت کی تشکیل ،جج صاحبان اورپراسکیوٹرکی تعیناتی کے خلاف درخواستیں دائرکی گئیں تھیں ۔ اسلام آبادہائی کورٹ کے جسٹس ریاض احمد نے پیرہی کے روز اس کی سماعت کی۔اس موقع پرمشرف کی طرف سے دووکیل ڈاکٹرخالدرانجھااور بیرسٹرانور منصور عدالت میں پیش ہوئے ۔اس موقع پرخالدرانجھانے عدالت کے سامنے یہ مؤقف پیش کیاکہ ان کے مؤکل نے ۳نومبر۲۰۰۷ء کوجوایمرجنسی لگائی ،وہ اقدام بطورآرمی چیف تھااور انہوں نے متعلقہ افرادسے مشاورت کے بعدہی یہ اقدام کیاتھالہنداان کے خلاف کاروائی صرف آرمی کے سیکشن ۹۲ کے تحت ہی کی جاسکتی ہے۔اس موقع پرپرویزمشرف کے بیرسٹر انورمنصورنے خصوصی عدالت کے حوالے سے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ خصوصی عدالت میں ججزکی تقرری درست نہیں ہے چونکہ وزیراعظم نوازشریف براہِ راست پرویز مشرف کے اقدام سے متاثرہوئے تھے لہنداوہ بھی غیرجانبدارنہیں رہے لیکن جسٹس ریاض احمدنے مختصرفیصلہ سناتے ہوئے مشرف کی درخواستیں مستردکردیں۔
مشرف خصوصی عدالت میں ٹرائل سے بچنے کیلئے کس قدرہاتھ پاؤں ماررہے ہیں،اس کااندازہ اس بات سے کیاجاسکتاہے کہ پیرکے روزہی مشرف کی طرف سے سپریم کورٹ میں بھی ایک دائر درخواست میں یہ استدعاکی گئی کہ۳نومبر۲۰۰۷ء کے اقدامات کوغیرآئینی قراردینے کے فیصلے کوٖغیرآئینی قراردینے کے عدالتی فیصلے پرنظرثانی کی جائے۔درخواست گزارنے یہ مؤقف اختیار کیا کہ چونکہ سابق چیف جسٹس افتخارمحمدچوہدری اوران کے دیگرساتھی جج صاحبان اس کیس میں خودمتاثرہ فریق تھے لہنداوہ خود جج نہیں بن سکتے تھے اس لئے ۳۱جولائی ۲۰۰۹ء کے اس فیصلے پرنظرثانی کرتے ہوئے اسے کالعدم قراردیاجائے۔دلچسپ امریہ ہے کہ سپریم کورٹ میں دائرکی گئی اس درخواست میں خصوصی عدالت میں ٹرائل پرحکم امتناعی جاری کرنے کی استدعابھی کی گئی ہے۔اس صورتحال سے مشرف خاصے پریشان ہیں کیونکہ ان کایہ خیال تھاکہ جسٹس(ر)افتخارمحمدچوہدری کی ریٹائرمنٹ کے بعدان کی جان چھوٹ جائے گی لیکن ان کایہ خیال بالکل غلط ثابت ہوا۔حکومت اس مقدمے اس حوالے سے انتہائی سنجیدہ ہے اورآئینی اورقانونی طورپربھی اس مقدمے میں استغاثہ کی پوزیشن انتہائی مضبوط ہے ۔مشرف کے دل میں ایک موہوم سی یہ امید بھی تھی کہ وہ آرمی چیف رہے ہیں،اس لئے مقتدرقوتیں بھی ان کے خلاف غداری کے مقدمے کو پسندیدگی کی نظرسے نہیں دیکھیں گی اوراس طرح بھی ان کوریلیف مل جائے گا لیکن سابق آمرکی یہ خوش فہمی بھی ان کو لے ڈوبی ہے،مقتدرقوتیں ان کے ساتھ کھڑے ہونے کیلئے تیار نہیں ہیں اوروہ عدالتی فیصلے کے ساتھ کھڑی ہوں گی۔
مشرف نے جب الیکشن سے پہلے پاکستان آنے کافیصلہ کیاتھاتواس وقت ان کادماغ ساتویں آسمان پرتھاحالانکہ جب ۲۰۰۸ء میں وہ اقتدارسے الگ ہونے کے بعدملک سے باہرچلے گئے توان کے دورمیں اقتدارکے مزے لوٹنے والے بھی ایک ایک کرکے ان سے الگ ہوتے گئے ۔چوہدری برادران سے محمدعلی اورامیرمقام تک تمام فصلی بٹیروں نے دیکھتے ہی دیکھتے چھتریاں تبدیل کر لیں اورمشرف کے تذکرے سے بھی گریزکرنے لگے۔واقفانِ حال کے مطابق اس دوران برطانیہ اوردبئی میں صرف وہی لوگ زیادہ تران سے ملاقاتیں کرتے جنہیں ان کے ساتھ تصویریں بنانے کاشوق تھا۔پاکستان آنے سے پہلے انہوں نے عام انتخابات میں حصہ لینے کااعلان کیااوروہ اس خوش فہمی میں مبتلاتھے کہ جب وہ کراچی ائرپورٹ پراتریں گے توان کے لاکھوں مداح استقبال کیلئے موجودہوں گے لیکن ان کے غبارے سے اسی وقت ہوانکل گئی جب انہوں نے ائرپورٹ پرچندسوافرادکودیکھا اوران میں سے بھی اکثرکودیہاڑی پرلایاگیاتھا۔
اس کے بعدمشرف مسلسل لال مسجدکیس،اکبربگٹی قتل کیس،بے نظیربھٹوقتل کیس اورججزکیس میں پھنستے چلے گئے۔انتخاب میں حصہ لینے کاخواب بھی ادھورارہ گیالیکن اس دوران جب ان کے مقدمات کی ضمانتیں ہوتی چلی گئیں تومختلف حلقوں میںیہ چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ وہ اب کسی بھی وقت بیرونِ ملک روانہ ہوجائیں گے لیکن حکومت کی طرف سے ان کے خلاف آرٹیکل ۶ کے تحت غداری کامقدمہ چلانے کے اعلان اوراس سلسلے میں خصوصی عدالت کی تشکیل نے مشرف کیلئے مزیدمشکلات کھڑی کردیں ہیں۔اس سلسلے میں حکومت کی سنجیدگی کاندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وفاقی حکومت نے مشرف کے خلاف سنگین غداری کاجرم ثابت کرنے کیلئے پانچ آئینی نکات اٹھاتے ہوئے خصوصی عدالت سے انہیں سزائے موت دینے کی استدعاکی ہے۔وہ پانچ آئینی نکات یہ ہیں:
(۱)مشرف نے بطورآرمی چیف ۳نومبر۲۰۰۷ء کوغیرآئینی طورپرایمرجنسی نافذکی۔(۲)آئین میں ترمیم کاغیرآئینی عبوری حکم نامہ جاری کیا۔(۳)جج صاحبان کو۳نومبر۲۰۰۷ء کونیاحلف لینے کا حکم دیا۔(۴) ۱۴نومبر۲۰۰۷ء کوآئین میں عبوری ترمیم کاحکم جاری کیا۔(۵)۱۴دسمبر۲۰۰۷ء کوآئین میں ترمیم کادوسرغیرآئینی حکم جار ی کیا۔
مشرف کے خلاف استغاثہ کی پوزیشن کتنی مضبوط ہے اس بارے میں ممتازقانون دان جسٹس(ر)وجیہہ الدین احمدکہتے ہیں کہ مشرف کے خلاف جوالزام عائدکیاگیا،یہ واحدجرم ہے جوآئینی جرم کہلاتاہے ۔دستورِپاکستان میں واضح طورپر یہ ذکر ہے کہ کوئی بھی ادارہ خواہ وہ پارلیمانی ہی کیوں نہ ہواورکوئی بھی شخصیت ہائی کورٹ اورسپریم کورٹ کی ساری اعلیٰ عدلیہ کوبیک جنبش قلم فارغ کرنے کااختیارنہیں رکھتی۔دستورمیں اس کیلئے ایک خاص طریقۂ کاروضع کیاگیاکہ اگراعلیٰ عدلیہ کے کسی ایک جج کوبھی فارغ کرناہوتواس کااختیار صرف سپریم جوڈیشنل کونسل کے پا س ہے ۔یہ کونسل چیف جسٹس آف پاکستان ،سپریم کورٹ کے دوسنیئرترین جج صاحبان اوردوہائی کورٹ کے سنیئرترین چیف جسٹس صاحبان پرمشتمل ہوتی ہے۔اگرکسی اعلیٰ عدلیہ جج کے خلاف مس کنڈکٹ کا الزام ہوتویہ معاملہ سپریم جوڈیشنل کونسل کے پاس جاتاہے اوروہی اس بارے میں فیصلہ کرتی ہے ۔
جسٹس(ر)وجیہہ الدین احمدنے کہاکہ کہ جنرل(ر)مشرف نے ۳نومبر۲۰۰۷ء کوجواقدام کیااس میں ان کاذاتی مفاد پیش نظرتھا۔انہوں نے عدالت کی طرف سے اپنے خلاف آنے والے کسی ممکنہ فیصلے کوروکنے کیلئے ساری اعلیٰ عدلیہ کوہی گھربھیج دیا۔ان کایہ اقدام سنگین ترین غداری ہے۔یہ کیس اتناواضح اورصاف ہے کہ قانون کی زبان میں مشرف کاجرم خودبول رہاہے ، اسے ثابت کرنے کیلئے کسی دلیل یاشہادت کی ضرورت نہیں۔مشرف کی طرف سے خصوصی عدالت کی ساکھ کومتنازعہ بنانے کی ہرکوشش کی گئی اورپراسکیوٹرکے بارے میں جوسوالات اٹھائے گئے یہ دراصل اس مقدمے کوالجھانے اورلمباکرنے کی کوشش ہے کیونکہ کسی بھی مقدمے میں جس فریق کی پوزیشن کمزورہو وہ ایسی ہی حرکتیں کرتا ہے، خصوصی عدالت پرمشرف کے اعتراض کودرست قرارنہیں دیا جا سکتاکیونکہ اس عدالت کی تشکیل کاطریقہ کارتوپہلے روزہی دستورمیں طے کردیاگیاتھاکہ یہ عدالت ہائی کورٹ کے تین جج صاحبان پرمشتمل ہوگی۔یہ طریقۂ کارخاص مشرف کیلئے وضع نہیں کیا گیا تھا بلکہ یہ عمومی طریقۂ کارہے جس کے مطابق خصوصی عدالت تشکیل دی گئی۔
دلچسپ امریہ ہے کہ مشرف کے کچھ وکلاء نے گزشتہ دنوں بھی لندن میں ایک پریس کانفرنس کرکے امریکا،برطانیہ اورسعودی عرب سے بھی اس معاملے میں مددمانگی ہے اوراقوام متحدہ سے بھی اس معاملے میں مداخلت کی اپیل کی ہے۔واقفانِ حال کے مطابق چونکہ نائن الیون کے بعدنام نہادوارآن ٹیررکے حوالے سے مشرف نے امریکااوراس کے اتحادیوں کی کافی’’خدمت‘‘کی ہے اس لئے وکلاء نے اب دہائی دی ہے کہ امریکاوبرطانیہ اس معاملے میں اب مداخلت کریں۔میں سمجھتا ہوں کہ امریکااوربرطانیہ کی طرف سے مشرف کوبچانے کیلئے اس معاملے میں مداخلت کی توقع کی جا سکتی ہے لیکن اقوام متحدہ کی طرف سے اس معاملے میں مداخلت کاکوئی امکان نہیں۔اس بارے میں قانونی ماہرین کاکہناہے کہ اقوام متحدہ کی طرف سے مداخلت نہ ہونے کی دوبڑی وجوہ ہیں ، اوّلاً اقوام متحدہ فردِواحدکی اپیل نہیں سنتی،ثانیاًیہ انسانی حقوق کانہیں بلکہ غداری کامقدمہ ہے اوراس طرح کے مقدمات میں کوئی دوسرا ملک یاادارہ مداخلت نہیں کرسکتا۔
سندھ ہائی کورٹ میں دائردرخواست کے قابل قبول نہ ہونے پرمشرف کے فرارکاپہلا حربہ ناکام ہوگیاہے لیکن شاطرسابق صدرنے ہارنہیں مانی۔منگل کے روز ان کی عدالت میں پیشی سے قبل ان کی راہداری سے ملنے والااسلحہ بارودبھی شک کی نگاہ سے دیکھاجارہاہے جسے جوازبناکرمشرف کی عدالت میں پیش نہیں کیاگیاجہاں ان پرغداری کیس میں فردِ جرم عائدہونی تھی۔باخبرذریعے کے مطابق مشرف کے ساتھیوں کی طرف سے ان کے وکلاء کویہ پیغام دیاگیاہے کہ وہ مشرف کوکسی بھی صورت میں سزانہیں ہونے دیں گے بلکہ انہیں ہرقیمت پربچائیں گے۔۲۹مئی سے طاہرالقادری نے بھی مہنگائی کے خلاف احتجاجی ریلیوں کاسلسلہ شروع کردیاہے جن کے بارے میں ذرائع کایہ دعویٰ ہے کہ ان کی مشرف کے ساتھ باقاعدہ ڈیل ہوئی ہے کہ ان ریلیوں کیلئے تمام فنڈزمشرف مہیا کریں گے۔ان کامقصدیہ ہوگاکہ طاہرالقادری احتجاج کے نام پر ملک میں افراتفری پھیلائیں تاکہ اس کی آڑمیں مشرف کے بیرون ملک جانے کی راہ ہموارہوسکے۔
جونہی عدالت نے حکومت کوسخت سیکورٹی کے حصارمیں مشرف کوعدالت میں پیش کرنے کاحکم دیاتاکہ ان پرفردِجرم عائدکی جاسکے تومشرف نے اپنے بچاؤ کیلئے فوری طورپراپنے بین الاقوامی رابطوں کوفعال کرکے اپنی خدمات کے عوض اپنی رہائی کیلئے بھیک مانگناشروع کردی ہے کہ عا لمی طاقتیں ان کی رہائی کیلئے زورڈالیں۔ممکن ہے کہ ایسی صورت میں ان 
کوکوئی ایسا موقع ہاتھ آجائے کہ وہ اپنی جان بچاکرملک سے باہرچلے جائیں،اس سلسلے میں آنے والے دن بہت اہم ہیں۔

«
»

۲۶جنوری :جمہوری مملکت ہونے کی خوشی اورغم آئین کے عدم نفاذ کا

صبر کرو ۔ بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے