مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ ایک مایہ ناز شخصیت

حضرت مولانا علی میاں کی شخصیت کوئی معمولی شخصیت نہیں تھی ، ایسی شخصیتیں صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں اور عالم انسانیت کے لیے رحمت ثابت ہوتی ہے، علی میاں ایک فرد اور ذات کا نام نہیں، ایک مشن ، ایک تحریک ، ایک دعوت اور ایک انقلاب کا نام ہے۔ مولانا علی میاں کے انتقال سے علم وحکمت کا ایک آفتاب غروب ہوگیا۔ وہ آفتاب جس کی روشنی اور جسارت سے عرب وعجم مستفید ہورہا تھا ، علی میاں ایک مفکر ، مدبر ، مؤرخ ، عالمِ دین ، عربی زبان وادب کے ماہر ، اعلیٰ درجہ کے انشاء پرداز ، سوانح نگار تھے۔ اسی کے ساتھ وہ زہد و تقویٰ ، سادگی و متانت اور خلوص ومحبت کا پیکر بھی تھے، منسکر المزاج ، شریف الننفس اور صاحبِ مروت انسان تھے۔ سلفِ صالحین کا نمونہ تھے۔ ،عربی اہلِ زبان کی طرح بولتے اور لکھتے تھے، اسلامی تحریکوں پر گہری اور بسیط نظر رکھتے تھے، جدید تہذیب و تحریک کی فتنہ سامانیوں اور سازشوں کا بھی گہرا علم رکھتے تھے اور اس کے خلاف ان کا بے باک ، مؤثر اور مدلل قلم جراحت اور مرہم دونوں کا کام کرتا تھے، مولانا نے اسی سے زائد کتابیں لکھیں جن میں تاریخ دعوت و عزیمت ، انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر ، پرانے چراغ ، نبی رحمت ، ارکانِ اربعہ ، جب ایمان کی بہار آئی ، اسلامیت اور مغربیت ، جیسی تاریخ ساز بلند پایہ کتابیں کافی مقبولِ عام ہوئیں۔

مولانا علی میاں ندوۃ العلماء کے ناظم ، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سربراہ ، آل انڈیا ملی کونسل کے سرپرست تھے، آکسفورڈ یونیورسٹی کے اسلامی سنٹر کے سربراہ ، رابطہ عالمِ اسلامی کے اہم ممبر ، اسلامی ادب کے عالمی مجلس اور فاؤنڈیشن فار اسٹڈیز اینڈ ریسرچ کے سربراہ اور مدینہ یونیورسٹی کے مجلس مشاورت کے رکن بھی تھے۔ اس کے علاوہ دیگر اداروں اور تنظیموں کےسرپرست بھی تھے۔ یہ وہ خوش نصیب تھے جن کے حوالہ خانہ کعبہ کی کنجی کی گئی تھی۔ ان کو شاہ فیصل ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا، حال ہی میں سلطان برونائی کی طرف سے ایک امتیازی عالمی ایوارڈ مولانا کو دیا گیا تھے۔

مولانا علی میاں ندویؒ صرف تحریر و تقریر کے گوشہ گیر ادیب وخطیب نہ تھے وہ میدانِ عمل کے شہسوار بھی تھے۔ ان کی پوری زندگی جہد مسلسل سے عبارت تھی ، وہ دینی ، ملی اور تعلیمی مسائل پر سوچتے تھے، اسکیم بناتے تھے اور اس میں رنگ بھرنے کے لیے اٹھ کھرے ہوتے تھے، ان کی ملی تڑپ اور دینی سرگرمیوں کا اس سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ جہاں ملکی اوربین الاقوامی اداروں کی سرپرستی کرتے ، ان کی میٹنگوں میں شریک ہوتے اور اپنے عالمانہ اور حکیمانہ مشوروں اور رایوں سے صحیح فیصلوں پر پہونچنے میں مددگار ثبت ہوتے وہیں انہوں نے اصلاحِ معاشرہ اور دینی شعور بیدار کرنے نیز انسانی فلاح وبہبود کے پیشِ نظر خود ایک ادارہ ’’ پیامِ انسانیت‘‘ کے نام سے قائم کیا تھا ، پیامِ انسانت کا سندیسہ لے کر وہ خود ملک بھر میں گھومتے رہے اورپیغام انسانی کا فرض انجام دیتے رہے ، پیامِ انسانیت سارے انسانوں کے لیے تھے اس کا خطاب مسلمانوں سے بھی تھا ، ہندوؤں سے بھی تھا ، وہ ملک میں امن و صلح اور بھائی چارہ کا ماحول بنانے کے لیے جہد مسلسل کرتے رہے ۔ وہ بڑے متوازن اور کھلے دل ودماغ کے آدمی تھے ، اسی وجہ سے ہندوؤں کی بڑی تعداد ان سے عقیدت رکھتی تھی، احترام کرتی تھی، حکمراں طبقہ سے لے کر بڑے بڑے سیاسی لیڈر ، مذہبی قائدین اور سماجی کارکنان ان کی خدمت میں حاضری دیا کرتے تھے۔

مولانا بڑے نرم خو، صلح جو انسان تھے ، ریشم کی طرح نرم لیکن مذہبی وتہذیبی بقاء وتحفظ کے معاملہ میں وہ کسی مصالحت کے قائل نہیں تھے، دینی وملی شناخت اورتشخص کے لیے ہر قربانی کے لیے تیار وآمادہ رہتے تھے۔ یوپی کی تعلیم گاہوں میں وندے ماترم اور سرسوتی وندنا کے جبری نفاذ پر ان کے شدید رد عمل سے بھونچال آگیا تھے۔ وہ ایک مردِ مجاہد کی طرح ڈٹ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور حکومت کو ایسی دھمکی دی کہ اس کی گھگھی بندھ گئی اور اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور ہوگئی ، مسلم پرسنل لاء کے تیرہویں اجلاس بمبئی میں وہ شریک نہیں ہوسکے لیکن خطبۂ صدارت میں بڑے واشگاف الفاظ میں انہوں نے واضح کردیا کہ مسلم پرسنل لاء میں کسی قسم کی تبدیلی دعوتِ ارتداد کے مترادف ہوگی اور ایسا ہوا تو ہم اس کا اسی طرح مقابلہ کریں جس طرح دعوتِ ارتداد کا مقابلہ کیا جاتا ہے۔ اس قسم کے جرأت مندانہ اقدامات کی تھوڑی سی قیمت بھی ان کا چکانا پڑی ، شرپسندوں نے ان کے مکان پر بلاوجہ اور صرف جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے چھاپہ مارا ، ندوہ پر ڈاکہ ڈالا، مولانا نے کے پتلے جلائے گیے ، گالیاں دیں لیکن اس کوہِ عزم وحوصلہ کے پاؤں میں ذرا سی لغزش بھی نہیں ہوئی۔

مولانا علی میاں کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ ان کا ظاہر اور باطن یکساں تھا ، وہ جو کہتے تھےیا لکھتے تھے وہی کرتے بھی تھے۔ ، ان کے یہاں تضاد فکروعمل کا کوئی شائبہ نہیں ملتا۔ دیکھا گیا ہے کہ بڑے بڑے نامور صاحبان علم وفضل ایسے بھی ہیں جن کے قول و عمل میں ظاہر وباطن میں باہری واندرونی زندگی میں کھلا تضاد پایا جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کا عوام اعتماد کھودیتے ہیں۔ مولانا کے منہ سے اگر پھول جھڑتا تھا تو ان کی داخلی اور عملی زندگی بھی خوشبوؤں سے رچی بسی تھی۔ ایسے اہلِ علم کی بھی کمی نہیں ہے جو غرورعلم میں مبتلا نظر آتے ہیں لیکن علی میاں کے اندر غرورِ علم تو کیا وہ ہمیشہ اپنے کو طالب علم ہی سمجھتے رہے ، یہ ان کے بڑے پن اور اونچے ظرف کا ثبوت ہے ۔ وہ شہرت و صلہ کے کبھی طلبگار نہیں رہے۔

افسوس کہ علم و داب کا وہ قطب مینار اور پہاڑی کا چراغ ، وہ بطلِ جلیل ، مردِ مومن ، مردِ حق آگاہ ہم سے جدا ہوگیا۔ ہم ان کو کیا خراجِ عقیدت پیش کرسکتے ہیں ، ہمارے پاس آنسوؤں اور دعاؤں کے سوا ہے ہی کیا۔ اللہ تعالیٰ سے بصمیمِ قلب دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ علئ میںا کی تمام بشری لغزشوں اور کوتاہوں کو معاف فرمائے اور جنت الفردوس عطا کرے اور ملتِ اسلامیہ کو صبرِ جمیل عطا کرے۔ آمین۔