نعت گوشاعر عزیزالدین عزیز بلگامی

(2025-1954)

محمدناصر سعید اکرمی

(بانی وناظم معہد الامام حسن البنا بھٹکل)

مؤرخہ 4/جمادی الاخریٰ 1447ھ مطابق29/نومبر2025ء بروز جمعہ واٹس ایپ کے ذریعے یہ اندوہناک خبر ملی کہ نامور نعت گوشاعر عزیزالدین عزیز بلگامی اب اس دنیامیں نہ رہے۔ إنا للہ وإناإلیہ راجعون

عزیزالدین صاحب کئی باربھٹکل تشریف لائے اوراپنے کلام سے لوگوں کو محظوظ کرتے رہے، تحریک اسلامی سے وابستہ عزیز صاحب نے اپنی شاعری اورنعتوں سے لوگوں کے دلوں کو گرماتے رہے، بھٹکل آتے توکئی دن ان کاقیام رہتا، مختلف اداروں میں مرحوم کے پروگرام ہوتے، جامعہ اسلامیہ میں کئی بار آئے اورطلبہ کے درمیان آپ کی ادبی نشستیں ہوئیں۔

جناب عزیز الدین کاتخلص عزیز تھاوہ لوگوں کے درمیان عزیز بلگامی سے معروف ومشہور ہوئے۔

مرحوم عصری تعلیم یافتہ ہیں،آپ نے ایم اے تک تعلیم حاصل کی، تدریسی خدمات بھی انجام دیں اورپرنسپل کے عہدے پر بھی رہے، شعر وشاعری سے ابتدا ہی سے مشغلہ رہا، آپ نے کئی نظمیں لکھی ہیں، آپ کے اشعارزیادہ تر سماجی مسائل، ملک وملت، اسلامیت وروحانیت جیسے موضوعات پر مشتمل ہوتے تھے۔

آپ کو خصوصیت کے ساتھ مشاعروں میں مدعو کیا جاتا تھا، جس کے لیے ہندوستان بھرمیں آپ کے اسفار ہوتے، ہندوستان کے علاوہ بیرون ہندمیں بھی آپ اسی شعروشاعری کی نسبت سے سفرکیے ہیں، امریکہ،دبی،سعودی عرب، برطانیہ وغیرہ کا سفر کیا۔

جب آپ اپنا کلام سناتے توخوب جم کر سناتے، ہاتھوں کے اشاروں کے علاوہ سراورگردن کوہلاہلاکر اشعارسناتے تھے، اشعار شاعر کی زبانی سننے جولطف اورمزہ آتاہے وہ کسی اورکے سننے میں نہیں آتا، آپ کی نعت”میرے مصطفی آئے،میرے مصطفی آئے“ بہت مشہور ہوئی اور مقبول بھی ہوئی،آپ جہاں بھی جاتے لوگ ان سے اس نعت کے پڑھنے کی خواہش ظاہر کرتے، جب آپ ا س کو پڑھتے توسماں سابندھ جاتا، جب آپ میرے مصطفی آئے دہراتے توسامعین بھی آپ کے ساتھ گنگنانے لگ جاتے، اس نعت نے آپ کو مقبول عام وخاص کردیا،، یہ نعت آج بھی چھوٹے بڑے کی نوک زبان پر ہے، اسی طرح آپ کی یہ نعت بھی کافی مشہورہوئی، ”اہل ستم کے پتھر کھاکر گل برسانے والاوہ“۔

اس وقت مجھے مرحوم جلال کڑپوی صاحب کی وہ نعت بھی یاد آرہی ہے جو آسان اور چھوٹے بحر میں ہیں:

کتنے پیارے اپنے رسول

کتنے اچھے ان کے اصول

سب کو کھلانا ایک عادت

بھوکے رہنا ایک معمول

شاہ عرب شاہ عجم

پیوندوں میں ان کے ببول

ہر گالی پر ایک دعا

کانٹے لے کر بانٹے بھول

آپ کا ایک خادم ہے جلال

حشر میں اس کو جاؤ نہ بھول

کتنے اچھے اشعار ہیں یہ، نہایت آسان زبان اورچھوٹی بحرکوشاعر نے استعمال کیا ہے، بچوں کے لیے یاد کرنابہت ہی آسان ہے، آپ کا انتقال جدہ میں غالباً اشعارپڑھتے پڑھتے ہواتھا، مرحوم کڑپاکے رہنے والے تھے، بھٹکلیوں سے بالخصوص سابق ناظم جامعہ مرحوم ملاحسن صاحب سے زیادہ قریب تھے، مرحوم نے جامعہ اسلامیہ پربھی نظم لکھی ہے۔

مرحوم عزیزالدین صاحب نے ادب کی کئی اصناف پر لکھاہے، غزل، نظم، حمد، نعت، منقبت مرحوم شاعری کے ساتھ ساتھ مضامین بھی لکھتے تھے اورآپ کے مضامین اخبار ورسائل میں شائع ہوجاتے، بہرحال مرحوم نے اردوکے حوالے سے اپنی خدمات قوم وملت کودی ہیں، زبان عربی کے بعد اردوہی ایک ایسی زبان ہے جودنیابھر میں بولی اورسمجھی جاتی ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے بچوں کواس کی تعلیم دیں، آج ہماری موجودہ نسل کایہ حال ہے کہ اردولکھناتو درکناراردوٹھیک سے بولنی بھی نہیں آتی، اگریہی کیفیت رہی تومستقبل میں آنے والی نسلیں اردوسے ناواقف ہوجائیں گی، موجودہ حکومت بھی نہیں چاہتی کہ اردو عام ہو، اورہم ہیں کہ اس سازش کاشکار ہورہے ہیں۔

اخیر میں مرحوم عزیز الدین صاحب کی دومشہور نعتوں کے چنداشعار بندنقل کرتاہوں تاکہ ان کوپڑھ کر آپ بھی محظوظ ہوجائیں اورمرحوم کے لیے دعائیں دیں، عزیز الدین عزیز صاحب ان شعراء میں شمارہوتے ہیں جن کو راقم نے قریب سے دیکھا اورسنا ہے۔

اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلندفرمائے اوردنیامیں جس شان کے ساتھ ”میرے مصطفی آئے“ پڑھتے اورلوگوں کوسناتے تھے اللہ پاک اس کی برکت سے حضرت محمد مصطفی ﷺسے جام کوثر ان کو نصیب فرمائے۔

دعوت و ہدایت کی، اِک حسیں شفَق لے کر میرے مصطفی آئے

کفر کے اندھیروں میں نور کا طبَق لے کر میرے مصطفی آئے

کفر تھا ضلالت تھی، مالک حقیقی سے، ہر طرف بغاوت تھی

بُولہب کی بستی میں، پیار کا سبق لے، کر میرے مصطفی آئے

ہٹ دھرم دور کو،دعوت رسالت سے، اطمینان کیا ہوتا

معجزہ ضروری تھا، ماہتاب شفق لے کر، میرے مصطفی آئے

فتنہ جو زمانہ تھا، دین اشاعت میں، حکمتیں ضروری تھیں

حاسدوں کی دنیا میں، سورۃ الفلق لے کر میرے مصطفی آئے

ٹھیک ہے عقیدت ہو،ساتھ ہی عقیدت کے،جذبہئ اِطاعت ہو

جو عمل کے قابل ہو، ایسا اِک سبق لے، کرمیرے مصطفی آئے

عالمِ رسالت میں، آئین رسالت کی،جو کتاب ادھوری تھی

اس کتابِ رحمت کا،آخری ورَق لے کر،میرے مصطفی آئے

اہل ستم کے پتھر کھا کر گل برسانے والا وہ

اوردعائے خیر کی خاطر ہاتھ اٹھانے والا وہ

کفر زدہ ماحول میں لمبی تان کے سونے والے ہم

کفر زدہ ماحول میں اک پل چین نہ پانے والا وہ

ذکر و عبادت ہی کو پورا دین سمجھنے والے ہم

باطل سے ٹکرا جانے کو دین بتانے والا وہ

…….