حسن البناء میں ایک ایمان افروز منظر
مفتی فیاض احمد محمود برمارے حسینی
حال ہی میں جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے الوداعی تقریب میں حاضری ہوئی تھی، اسی دن عصر بعد بھٹکل کے معروف تعلیمی ادارے حسن البناء میں ایک روح پرور اور ایمان افروز مجلسِ ختمِ قرآن میں شرکت کا موقع ملا۔ اس مجلس کی خصوصیت یہ تھی کہ حسن البناء کے تحت جاری جامعۃ الطیبات میں زیر تعلیم ایک طالبہ نے نہایت خوش الحانی، تجوید اور یکسوئی کے ساتھ اپنا حفظِ قرآن مکمل کیا۔ طالبہ کی پراثر تلاوت نے سامعین کے دلوں کو چھو لیا اور آنکھیں بے اختیار اشکبار ہو گئیں۔ بعد ازاں ہمارے بہت ہی مشفق اور محبت کرنے والے ہمت افزائی کرنے والے مولانا ناصر صاحب اکرمی حفظہ اللہ کے حکم پرچند منٹ کے لیے تاثرات کے اظہار کا موقع بھی ملا، جو میرے لیے باعثِ سعادت تھا۔
مولانا سے بھی بندہ کو بہت محبت ہے بھٹکل جانے کے بعد بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ مولانا کی ملاقات کے بغیر واپسی ہو مولاناعلم وعمر میں ہم سے کافی بڑے ہونے کے باوجود ایسی شفقت فرماتے ہیں کہ علم وعمر کا فرق ختم ہو جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ مولانا کو خوب جزائے خیر عطا فرمائے ۔مولانا جامعہ اسلامیہ کے سابق استاذ، بھٹکل کے متعدد علماء کے استاذ اور ایک قدیم و کہنہ مشق عالمِ دین ہیں۔ بھٹکل میں عمومی طور پر بچیوں کے اندر حفظِ قرآن کا شوق قابلِ رشک ہے اور یہاں حافظاتِ قرآن کی بڑی تعداد موجود ہے، لیکن مولانا ناصر صاحب کی یہ ایک نمایاں اور تاریخی خدمت ہے کہ انہوں نے نہایت خاموشی، استقامت اور اخلاص کے ساتھ قوم کی بچیوں کو حافظہ بنانے کا ایک مستقل مشن اٹھا رکھا ہے۔
اس موقع پر سب سے قابلِ توجہ پہلو یہ تھا کہ یہ کوئی کل وقتی مدرسہ نہیں، بلکہ عصر کے بعد چند گھنٹوں کے لیے طالبات آتی ہیں اور باقاعدہ سبق، سبق پارہ اور سبقِ اموختہ سناتی ہیں۔ یہ طالبہ بھی عصری تعلیم کے اعتبار سے بارہویں جماعت میں ہے ۔یہ ایک منظم، مربوط اور نتیجہ خیز نظام ہے، جو اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ خلوص، درست منصوبہ بندی اور مسلسل محنت کے ساتھ کم وقت میں بھی بڑے دینی مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔اطلاع کے مطابق اس سال کی یہ اٹھارہویں حافظہ ہے جو اس ادارے کے زیرِ اہتمام حفظِ قرآن کی سعادت سے ہمکنار ہوئی ہے۔ مزید یہ کہ یہاں حفظ مکمل ہونے کے بعد طالبہ کو فارغ نہیں کر دیا جاتا، بلکہ کم از کم دس دورِ قرآن کرانا لازم قرار دیا گیا ہے، جو معیار، پختگی اور قرآن سے مضبوط تعلق کی بہترین مثال ہے۔ یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ یہاں حفظ کے ساتھ ساتھ مراجعت اور استحضار پر بھی غیر معمولی توجہ دی جاتی ہے۔
ایک اور حیرت انگیز اور قابلِ تقلید پہلو یہ سامنے آیا کہ تکمیلِ حفظ کے موقع پر خود مولانا ناصر اکرمی صاحب نے اس طالبہ کی آواز اور تلاوت پہلی مرتبہ سنی۔ پورا تعلیمی اور تربیتی نظام معلمات کے سپرد ہے، جبکہ مولانا صاحب بطور نگران خاموشی سے اس پورے مشن کی نگرانی فرما رہے ہیں۔ یہ اعتماد، نظم اور اجتماعی کام کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ادارہ حسن البناء کی یہ کوشش اس بات کی روشن دلیل ہے کہ اگر نیت خالص ہو، نظام مضبوط ہو اور قیادت مخلص ہو تو بغیر کسی تشہیر کے بھی قوم کے لیے عظیم خدمات انجام دی جا سکتی ہیں۔ ایسی خاموش مگر نتیجہ خیز خدمات یقیناً قابلِ تحسین ہی نہیں بلکہ قابلِ تقلید بھی ہیں۔
حسن البنا ء تمام دینی و تعلیمی اداروں کے لیے ایک واضح پیغام رکھتا ہے کہ اگر خلوصِ نیت، مضبوط نظم اور بااعتماد معلمات پر مشتمل ٹیم میسر ہو تو محدود اوقات اور وسائل کے باوجود بھی قرآنِ کریم جیسی عظیم امانت نئی نسل کے سینوں میں محفوظ کی جا سکتی ہے۔ ضروری ہے کہ ادارے حفظِ قرآن کو محض وقتی جذبہ نہیں بلکہ ایک مستقل، منظم اور معیاری مشن کے طور پر اپنائیں، جس میں حفظ کے بعد مضبوط مراجعت اور کثرتِ دور کو لازمی جزءبنایا جائے۔
اسی طرح والدین کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ وہ دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم، بالخصوص حفظِ قرآن، کو اپنی اولاد کی زندگی کا لازمی حصہ بنائیں۔ یہ خیال کہ اسکول اور کالج کے ساتھ حفظ ممکن نہیں، محض ایک وہم ہے۔ حسن البناء جیسے ادارے اس بات کا عملی ثبوت ہیں کہ صحیح رہنمائی، تعاون اور حوصلہ افزائی کے ساتھ بچیاں عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ قرآنِ کریم کی عظیم دولت سے بھی مالامال ہو سکتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے اداروں کو اخلاص، استقامت اور قبولیت عطا فرمائے، ان کے ذمہ داران اور معلمات کی محنتوں کو شرفِ قبولیت بخشے، والدین کو دینی شعور اور حوصلہ عطا فرمائے، اور ہماری بیٹیوں کو قرآن کا سچا علمبردار بنا کر امت کے لیے باعثِ فخر بنائے۔ آمین۔



