نئی دہلی: جامعہ ملیہ اسلامیہ اس وقت تنازعہ کی زد میں آ گئی ہے جب بی اے (آنرز) سوشل ورک کے پہلے سیمسٹر کے امتحان میں ایک متبادل سوال کے طور پر طلباء سے کہا گیا کہ “ہندوستان میں مسلم اقلیتوں کے خلاف مظالم پر مناسب مثال دیتے ہوئے بحث کریں۔” یہ سوال سامنے آتے ہی ایک طبقہ مشتعل ہو گیا اور سوشل میڈیا پر اس کے خلاف مہم چلائی جانے لگی
جامعہ انتظامیہ نے فوری طور پر حرکت میں آتے ہوئے سوشل ورک ڈپارٹمنٹ کے پروفیسر ویریندر بالاجی شاہارے کو معطل کر دیا۔ یونیورسٹی کے بیان کے مطابق، “تعلیمی اداروں میں ایسے سوالات کی اجازت نہیں دی جا سکتی جو کسی ایجنڈے یا متنازعہ نظریے کو فروغ دینے کا سبب بن سکتے ہیں۔”
اس معاملے کی مکمل چھان بین کے لیے جامعہ ملیہ اسلامیہ نے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ کمیٹی یہ معلوم کرے گی کہ سوال نامہ تیار کرنے کے دوران کہاں غلطی ہوئی اور آیا یہ سوال کسی خاص مقصد کے ساتھ شامل کیا گیا تھا۔ یونیورسٹی نے آئندہ کے لیے سوال ناموں کی جانچ کے اصول مزید سخت کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
پروفیسر کی معطلی کے بعد طلبا کے درمیان ملا جلا رد عمل دیکھا گیا۔ کچھ طلبا کا کہنا ہے کہ اگر “مسلم اقلیتوں پر مظالم” نصاب کا حصہ ہے، تو اس پر سوال پوچھنا فطری بات ہے۔ دوسری طرف کچھ طلبا نے اسے غیر ضروری تنازعہ قرار دیا۔
سوشل میڈیا پر بھی تقسیم واضح دکھائی دی۔ کئی صارفین نے کہا کہ جامعہ انتظامیہ کو تعلیمی آزادی کا دفاع کرنا چاہیے تھا، نہ کہ دباؤ میں آ کر پروفیسر کو معطل کرنا۔
یہ معاملہ اب محض ایک امتحانی سوال تک محدود نہیں رہا بلکہ تعلیمی آزادی اور اظہار رائے کے حق پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، یونیورسٹیوں میں تدریسی آزادی کو اس طرح محدود کرنا تعلیمی ماحول پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔




