کنداپور (فکر و خبر نیوز) جامعہ ضیاء العلوم کنڈور کے شعبہ حفظ عالمیت اور افتاء سے فراغت پانے والوں کے اعزاز میں ایک الوداعی نشست جامعہ مسجد کنڈور کے احاطے میں کل رات بعد نماز عشاء منعقد کی گئی جس میں فارغین کا اعزاز کیا گیا اور انہوں نے اپنے علمی سفرنامے کے تاثرات بھی سامنے رکھے۔
واضح رہے کہ امثال شعبہ حفظ سے تین طلباء نے حفظ قران کی تکمیل کی ہے سات طلباء عالمیت سے فراغت حاصل کر رہے ہیں اور نو طلباء نے اپنا افتاء کا کورس مکمل کیا ہے
اس موقع پر بطور مہمان خصوصی ٹمکور کے مشہور عالم دین مولانا خالد بیگ صاحب ندوی نے کلیدی خطاب کرتے ہوئے تعلیم سے جڑے رہنے اور تعلیم کے فروغ کے لیے فارغین کو اپنے اپنے علاقوں کے میدانوں میں کام کرنے کی نصیحت کی۔ مولانا نے مسلمانوں کی موجودہ تعلیمی و سماجی صورتحال، نئی قومی تعلیمی پالیسی (NEP 2020) کے اثرات، اور تاریخِ عالم کی مثالوں کی روشنی میں ایک سخت تنبیہ اور بیداری کا پیغام دیا۔
اسی طرح حالات کی نزاکت کا احساس دلاتے ہوئے نئی نسل کی فکری و تعلیمی حفاظت کی طرف بھی فارغین کی توجہ مبذول کرائی۔ مولانا نے نیت، عزم اور عملی جدوجہد کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جو طلبہ دورانِ تعلیم بلند ارادے اور عملی جذبہ رکھتے ہیں، اللہ ان کے ہاتھوں بڑا کام لیتا ہے۔ اور جو لوگ شکایتوں میں وقت ضائع کرتے ہیں، وہ تاریخ کے صفحات میں گم ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے طلبہ سے کہا کہ فارغ ہو کر مقصد کے ساتھ نکلیں ،قوم و ملت کی خدمت کو اپنا مشن بنائیں۔
مولانا نے حاضرین کی توجہ اس طرح مبذول کرائی کہ اس ملک کی تاریخ میں مسلمانوں کے لیے سب سے خطرناک دن 28 جولائی 2020 ہے جب ہندوستان کے ایجوکیشن سسٹم کو بدل دیا گیا۔ اورنئی قومی تعلیمی پالیسی کے بارے میں انہوں نے تین بنیادی تبدیلیاں بیان کیں کہ تعلیم کے تمام مضامین کو ہندوتو نظریاتی تشریح کے سانچے میں ڈھالا گیا ، "روحانیت” کے نام پر مذہبی بیانیے کی جبری تعلیم اور حب الوطنی کو ایک مخصوص مذہبی شناخت سے مشروط کردیا۔ انہوں نے کہا کہ سائنس ہو یا میتھ ، سوشل اسٹڈیز ہو یا لینگوئج ۔ ہر چیز کے ذریعے نئی نسل کا ذہن شرک اور کفر کے مزاج پر ڈھالا جا رہا ہے اور 15 سے 18 سال میں ایک نسل بدل جاتی ہے۔ اگر ذہنی تشکیل اسی انداز میں جاری رہی تو اگلی نسل ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گی۔ مولانا نے خلافت عثمانیہ کی تاریخ کی روشنی میں کہا کہ جہاں 600 سالہ حکومت میں ہزاروں مدارس اور مساجد تھے لیکن ایک دور ایسا آیا جہاں ایک مسجد اور مدرسہ بھی بچانا مشکل ہوگا اور یہ سب تعلیمی پالیسی کے ذریعہ ممکن ہوا۔ جب دشمن نے سرکاری اسکولوں اور نرسنگ ہوم کے ذریعے سوچ بدل دی تو چند دہائیوں میں وہ نسل تیار ہوئی جس نے اذانیں بند کر دی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ آج معاملہ ڈرانے کا نہیں، جگانے کا ہے۔ اگر ہم نے اپنی آنے والی نسلوں کی فکری و ایمانی حفاظت نہ کی تو 15 سال بعد ہمیں اپنے گھروں میں بھی مسلمان ہونے کی آزادی میسر نہیں رہے گی۔




