اُڑیسا کے گنجام ضلع میں بنگالی مسلم محنت کشوں پر ہجومی تشدد کے ایک خوفناک واقعے نے ملک کے سیکولر نظام اور بین ریاستی مزدوروں کی حفاظت پر سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
مرشدآباد (مغربی بنگال) کے رہائشی 24 سالہ روح الاسلامکو بدھ 24 نومبر کی شام گنجام کے رانی پادا گاؤں میں بھیڑ نے گھیر کر ’’بنگلہ دیشی‘‘ قرار دیتے ہوئے مارا پیٹا اور ’جئے شری رام‘ کا نعرہ لگانے پر مجبور کیا۔
روح الاسلام نے گھر واپس پہنچ کر بتایا:
’’انہوں نے مجھے گالیاں دیں، آدھار کارڈ کو جعلی کہا، لاتوں اور گھونسوں سے حملہ کیا۔ میں نے نعرہ لگانے سے انکار کیا تو دھمکی دی کہ پٹرول چھڑک کر آگ لگا دیں گے۔ جان بچانے کے لیے آخر کار میں نے نعرہ لگا دیا۔‘‘
روح الاسلام سرِدست کپڑوں اور مچھر دانی سمیت موسمِ سرما کا سامان بیچنے اُڑیسا پہنچا تھا۔ لیکن حملے کے بعد وہ اور اس کے دو ساتھی 25 اور 26 نومبر کو مختلف مقامات پر متاثر ہونے کے بعد ریاست چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔
پولیس کی مبینہ بےحسی
پردیسی شرمک ایکیہ منچ کے صدر محمد رپن نے اُڑیسا کے ڈی جی پی کو ای میل شکایت بھیجی، جس میں پولیس پر تعاون نہ کرنے اور متاثرین کو ’’ریاست چھوڑ دو‘‘ کہہ کر بھگا دینے کا الزام عائد کیا گیا۔
شکایت میں کہا گیا ہے کہ:
’’پولیس نے کوئی کارروائی کرنے کے بجائے کہا کہ یہاں کام نہ کریں اور گھر واپس چلے جائیں۔‘‘
تاہم مقامی کوڈالا تھانہ کے انچارج سبھاش بہیرا نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ انہیں کسی ایسے واقعے کی معلومات نہیں۔
روح الاسلام کے مطابق ہجومی حملے کی ویڈیوز مقامی لوگوں نے بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ بھی کی ہیں۔
مسلسل حملے اور بڑھتی نفرت: دیگر متاثرین کے بیانات
محمد سیف الدین مومن (46) نے بتایا کہ چند ہفتے پہلے بھدرک پولیس نے انہیں اور ان کے ساتھیوں کو بنگلہ دیشی ہونے کے شبہے میں تین دن تک حراست میں رکھا۔
’’کیا داڑھی رکھنا جرم ہے؟ کیا اُڑیسا میں محنت مزدوری کرنا جرم ہے؟‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ انہیں اپنی شناخت ثابت کرنے کے لیے متعدد سرکاری دستاویز دکھانے پڑے، پھر بھی انہیں شک کی نگاہ سے دیکھا گیا۔
محمد حسان الرحمٰن (45) نے بتایا کہ:
’’چند دن مسلسل حراست میں رہنے اور تفتیش برداشت کرنا بھی ایک طرح کی اذیت ہے۔ سب سے بڑا درد یہ ہے کہ اچانک آپ کی حب الوطنی پر شک کر دیا جاتا ہے۔‘‘
نفرت کی وجہ کیا؟ پس منظر
2024 کے وسط میں بی جے پی نے اُڑیسا میں بی جے ڈی کو شکست دے کر حکومت بنائی۔ اس کے بعد سے پولیس نے ’غیر قانونی بنگلہ دیشی تارکین وطن‘ کی شناخت کے نام پر خصوصی مہم چلائی جس کے دوران:
500 سے زائد لوگ اٹھائے گئے
448 افراد صرف جھار سو گوڈا ضلع سے گرفتار ہوئے
بعد میں دستاویزات درست ثابت ہونے پر انہیں رہا کرنا پڑا
اسی عرصے میں ٹی ایم سی کی ایم پی ماہوا موئترا نے حکومت پر ’’معصوم شہریوں کی ہراسانی‘‘ کا الزام لگایا۔
تجزیہ اور ماہرین کا ردعمل
ان واقعات نے ملک میں بین ریاستی مزدوروں کی سلامتی،مذہبی شناخت کی بنیاد پر تعصب،پولیس کے متعصبانہ رویےپر گہری تشویش پیدا کی ہے۔
انسانی حقوق کے کارکن کہتے ہیں کہ اگر مسلسل خاموشی رہی تو بھید بھاؤ اور تشدد کا یہ رجحان خطرناک موڑ لے سکتا ہے۔




