غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی جانب سے متعین کی جانے والی "یلو لائن” نے تازہ سفارتی ہلچل پیدا کر دی ہے۔ غیر ملکی رپورٹس کے مطابق یہ لائن غزہ کو دو حصوں — شمالی اور جنوبی — میں بانٹنے کی سمت اشارہ کر رہی ہے۔ بعض ماہرین نے اسے اکیسویں صدی کی "دیوارِ برلن” قرار دیا ہے جو فلسطینی علاقوں کو ہمیشہ کے لیے منقسم کر سکتی ہے۔
مصر کے فوجی تجزیہ کار اور کالج آف کمانڈ اینڈ اسٹاف کے تربیت کار اسامہ محمود کے مطابق اسرائیل واضح طور پر 13 اکتوبر کو شرم الشیخ میں طے شدہ امن منصوبے کے دوسرے مرحلے کو روکنا چاہتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ "یلو لائن” دراصل زمین پر واضح سرحد نہیں بلکہ ایک مبہم فوجی پٹی ہے، جسے اسرائیل پختہ دفاعی دیوار میں بدلنے کی کوشش کر رہا ہے۔
سابق مصری سفیر عاطف سالم نے بھی خبردار کیا کہ اسرائیل تعمیرِ نو کے منصوبے کو صرف اپنے زیرِ کنٹرول علاقوں تک محدود رکھنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ امریکی حکام، خاص طور پر نائب صدر اور جیرڈ کشنر، اسرائیلی شرائط پر منصوبے کے نفاذ کی ہدایت دے چکے ہیں۔
اسرائیلی فوج کی جانب سے "یلو لائن” پر سیمنٹ کی رکاوٹوں کی تنصیب اس خدشے کو مزید تقویت دیتی ہے کہ یہ عارضی انتظام دراصل مستقل سرحدی تقسیم کی ابتدا ہے۔ یورپی عہدیداروں نے بھی اس امکان کو رد نہیں کیا کہ اگر امریکہ نے فلسطینی اتھارٹی کو مذاکرات میں شامل نہ کیا تو "ٹرمپ امن منصوبہ” محض جنگ بندی پر محدود رہ جائے گا۔
بین الاقوامی سفارتی حلقے اس نئی پیشرفت پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ، مصر، اور بعض عرب ممالک نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ تعمیرِ نو کے منصوبے میں رکاوٹیں نہ ڈالے اور غزہ کی وحدت کو برقرار رکھنے کی یقین دہانی کرائے۔




