سیکولرازم کاغذ پر نہیں حقیقت میں دکھائی دینا چاہئے

۱۳ مئی ۲۰۲۳ کو اکولہ شہر میں پیش آئے فرقہ وارانہ فسادات میں کئی افراد زخمی ہوئے اور املاک کو نقصان پہنچا۔ زخمی محمد افضل محمد شریف نے معاملے کی شفاف تحقیق کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
۱۱ ستمبر ۲۰۲۵ کو عدالت عظمیٰ نے حکم دیا تھا کہ تحقیقات کے لیے ہندو اور مسلم سینئر پولیس افسران پر مشتمل مشترکہ ایس آئی ٹی تشکیل دی جائے تاکہ عدالتی اعتماد اور بین المذاہب شفافیت برقرار رہے۔
مہاراشٹر حکومت کی نظرثانی عرضی
ریاستی حکومت نے سپریم کورٹ میں نظرثانی عرضی دائر کرتے ہوئے کہا کہ مذہبی شناخت کی بنیاد پر ایس آئی ٹی تشکیل دینا ادارہ جاتی سیکولرازم کے اصولوں کے خلاف ہے۔ حکومت کا مؤقف تھا کہ تفتیش پیشہ وارانہ بنیادوں پر ہونی چاہیے، مذہبی بنیادوں پر نہیں۔
جسٹس سنجے کمار کا موقف
جسٹس سنجے کمار نے حکومت کی دلیل کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ اکولہ فساد کے دوران پولیس کی غیر جانبداری پر سوالات اٹھے تھے۔ ایسے حالات میں صرف ایسی ٹیم جو دونوں مذاہب کے افسران پر مشتمل ہو، ہی شفافیت اور اعتماد کو یقینی بنا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا، "سیکولرازم صرف کاغذی نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے عملی طور پر نافذ کیا جائے۔”
انہوں نے اپنے فیصلے میں بلرام سنگھ کیس کا حوالہ دیا اور قرار دیا کہ اصل عدالتی حکم بلکل درست تھا۔
جسٹس ستیش چندر شرما کا اختلافی فیصلہ
اس کے برعکس جسٹس ستیش چندر شرما نے کہا کہ ریاستی حکومت کی دلیل قابل غور ہے کہ مذہبی بنیاد پر ٹیم بنانا آئینی سیکولرازم کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ انہوں نے نظرثانی عرضی کو کھلی عدالت میں سننے پر رضامندی ظاہر کی اور مدعا علیہان کو نوٹس جاری کیا۔ دونوں فریقوں کو دو ہفتوں میں جواب داخل کرنے کی ہدایت دی گئی۔
اکولہ پولیس کی یکطرفہ کارروائی پر سوال
مقدمے میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ فساد کے بعد پولیس نے صرف ایک طبقے کے نوجوانوں کو گرفتار کیا، جبکہ اصل حملہ آوروں کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی۔ یہی معاملہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی بنیاد بنا۔

بہار اسمبلی انتخابات 2025: ایگزٹ پولز نے دیا حیران کن اشارہ — کیا این ڈی اے دوبارہ اقتدار میں؟

"دہلی دھماکوں کے مجرموں کو بخشا نہیں جائے گا” بھوٹان سے وزیراعظم مودی نے جاری کیا بیان