کائناتِ دل ان پہ تصدق

(ہمیں رسول اللہ ﷺ سے محبت کیوں نہ ہوتی؟)

(✍🏻محمد سمعان خلیفہ ندوی، استاد جامعہ اسلامیہ بھٹکل)

امتِ مسلمہ اپنے وجود کے آغاز ہی سے اپنے محبوب نبی ﷺ کے دفاع اور ان پر مرمٹنے کے لیے جس طرح کمربستہ ہے اور ان کے ناموس پر اپنی متاعِ جاں قرباں اور اپنی کُل کائنات نچھاور کرتی رہی ہے یہ اس کی نبی اکرم ﷺ سے گہری محبت کی روشن دلیل ہے۔ آج کے اس گئے گزرے دور میں بھی اس کے نمونے دیکھے جاسکتے ہیں، جب بھی کہیں شان رسالت میں ادنی گستاخی یا محبت رسول کے حوالے سے ارباب تخت وتاج کی طرف سے کہیں کوئی دست درازی کا معاملہ سامنے آتا ہے تو امت کے قافلۂ نیم جاں میں روح پڑتے اور اس کے تنِ نازک میں شاہیں کا جگر پیدا ہوتے دیر نہیں لگتی،

اگرچہ کہ ہم حقوق نبوت کی ادائیگی میں کوتاہ کار ہیں، لیکن پھر بھی دل محبت نبوی سے سرشار ہیں۔

آخر آپ ﷺ کو ہم دل وجان سے کیوں نہ چاہیں؟

جب کہ خود اللہ رب العزت نے ان کی مدح فرمائی ہے:

﴿قسم ہے ستارے کی جب وہ گرا، تمہارا ساتھی نہ بہکا نہ بھٹکا، اور وہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں کہتا، یہ تو محض وحی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے﴾ [النجم: 1-4]۔

تو پھر آپ ﷺکی سیرتِ طیبہ سے روشناس بھی ہمیں ہونا پڑے گا۔

آخر آپ ﷺ کو ہم دل وجان سے کیوں نہ چاہیں؟

جب کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری رسالت کے لیے آپ کو منتخب فرمایا اور ارشاد فرمایا:

﴿محمد تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں﴾ [الأحزاب: 40]۔

تو پھر آپ ﷺ کے مقام ومرتبے سے ہمیں واقف بھی ہونا پڑے گا۔

آخر آپ ﷺ کو ہم دل وجان سے کیوں نہ چاہیں؟

جب کہ اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمایا:

﴿اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت ہی بناکر بھیجا ہے﴾ [الأنبیاء: 107]۔

آپ  ﷺ انسانوں کے لیے بھی رحمت ہیں، جنوں کے لیے بھی، حیوانات اور چرند پرند کے لیے بھی۔ تمام جہانوں کے لیے بھی۔

“إنما أنا رحمۃ مھداۃ” (دارمی) میں تو رحمت کا وہ تحفہ ہوں جسے دنیا کے نام بھیجا گیا ہے)۔

تو پھر آپ  ﷺ کے اخلاق بھی ہمیں اپنانے ہوں گے۔

آخر آپ ﷺ کو ہم دل وجان سے کیوں نہ چاہیں؟

آپ  ﷺ تو انسانوں کو گمراہی کے اندھیروں سے نکالنے کا ذریعہ بنائے گئے۔ اس وقت جب دنیا جہالت کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی، عرب و عجم سب اللہ کی نگاہ میں معتوب تھے، سوائے چند اہلِ کتاب کی باقیات کے، پوری دنیا نیکی کے نام سے واقف تھی، نہ برائی سے گریزاں۔ تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿اللہ نے تمھاری طرف ذکر (قرآن) اتارا، ایک رسول جو تم پر اللہ کی روشن آیات تلاوت کرتا ہے تاکہ ایمان والوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے آئے﴾ [الطلاق: 10-11]۔

حضرت جعفر بن ابی طالبؓ کی زبانی: “ہم بتوں کے پرستار تھے، مردار کھاتے، شراب پیتے، رشتے توڑتے اور بے حیائی میں ملوث رہتے؛ یہاں تک کہ اللہ نے ہمارے پاس اپنے نبی محمد ﷺ کو بھیجا، تو انھوں نے ہمیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف پہنچایا۔”

تو پھر آپ ﷺ کی لائی ہوئی ہدایت کو ہمیں اختیار کرکے اس کے نور سے اپنی زندگی کی تاریک راہوں کو منور کرنا ہوگا۔

آخر آپ ﷺ کو ہم دل وجان سے کیوں نہ چاہیں؟

آپ ﷺ نے ہم سے محبت کی اور ہمارے لیے سراپا دعا رہے۔

اماں عائشہؓ بیان کرتی ہیں: ایک دن میں نے نبی ﷺ کو خوش دیکھا تو عرض کیا: “یا رسول اللہ! میرے لیے دعا فرمائیے۔” آپ ﷺ نے فرمایا: “اے اللہ! عائشہ کے اگلے پچھلے، چھپے اور ظاہر سب گناہ معاف فرما دے۔” یہ سن کر حضرت عائشہؓ خوشی سے ہنس پڑیں یہاں تک کہ ان کا سر ان کی گود میں جا گرا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: “کیا میری دعا نے تجھے خوش کردیا؟” انھوں نے کہا: آخر کیوں نہ خوش کرتی! آپ ﷺ نے فرمایا: “اللہ کی قسم! یہ دعا میں اپنی امت کے لیے ہر نماز میں کرتا ہوں۔” (ابن حبان)

سوچیے! نبیِ کریم ﷺ ہر نماز میں امت کے لیے دعا فرماتے ہیں، ہمارے اور آپ کے لیے دعا فرماتے ہیں، سوچ کر ہی کس قدر فرحت ہوتی ہے! روح وجد میں آتی ہے! اور ہم ہیں کہ آپ کی محبت و اطاعت میں کوتاہی کرتے ہیں!

چلیں، آج سے آپ ﷺ کی ہر ادا کو اپناتے ہیں اور سنت کے نور سے اپنی زندگیوں کو سجاتے ہیں۔

آخر آپ ﷺ کو ہم دل وجان سے کیوں نہ چاہیں؟

آپ ﷺ تاریک راتوں میں ہمارے لیے تڑپا کیے، ہماری خاطر  آپ ﷺ آنسو بہاتے رہے۔ حضرت عبداللہ بن عمروؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا تلاوت کی: ﴿پروردگار! انھوں نے بہتوں کو گمراہ کردیا، پس جو میرا پیرو ہو وہ میرا ہے﴾ [ابراهيم: 36]، اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعا بھی: ﴿اگر تو انھیں عذاب دے تو یہ تیرے ہی بندے ہیں، اور اگر تو انھیں بخش دے تو بے شک تو ہی غالب اور حکمت والا ہے﴾ [المائدة: 118]۔ پھر آپ ﷺ نے ہاتھ اٹھائے اور فرمایا: “یا اللہ! میری امت، میری امت!” اور آپ رو پڑے۔

لگائے جائیں گے اُس دن صدائے نفسی سب

مرے نبی ہی کی ہے شان “امتی” کہنا

بروز حشر کہ جب جان پر بنی ہوگی

محبتوں کا ہے اعلان “امتی” کہنا

اللہ تعالیٰ نے جبرائیلؑ کو حکم دیا: “جاؤ محمد ﷺ سے پوچھو وہ کیوں رو رہے ہیں؟” … پھر اللہ نے فرمایا: “ہم تمھیں تمھاری امت کے بارے میں راضی کر دیں گے، ہرگز رنجیدہ نہ کریں گے۔” (مسلم)

یاد رکھیں! جنت کا داخلہ اور اس کی نعیمِ جاودانی اور جہنم سے نجات اور دنیا وآخرت کی کامیابی درحقیقت نبی کریم ﷺ کی انہی دعاؤں کا ثمر ہے۔ تو اب ہمارا بھی فرض ہے کہ آپ ﷺ کے اس سر رشتے کو مضبوطی سے تھام لیں اور آپ کی ہدایت سے فیض یاب ہوتے رہیں۔

آخر آپ ﷺ کو ہم دل وجان سے کیوں نہ چاہیں؟

آپ ﷺنے اپنی مخصوص مقبولیت والی دعا قیامت کے دن امت کی شفاعت کے لیے محفوظ رکھی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: “ہر نبی کے پاس ایک مقبول دعا ہوتی ہے، اور میں نے اپنی دعا قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لیے اٹھا رکھی ہے۔” (بخاری و مسلم)

آپ  ﷺ چاہتے تو یہ دعا اپنی ذات کے لیے، اپنے اہلِ خانہ کے لیے یا اپنے اعزہ کے لیے کرتے، مگر قربان جائیں! آپ ﷺ نے اسے امت کے لیے مخصوص کردیا۔ تو آئیے، آپ  ﷺ کی دعوت کو اپنے قول و عمل سے عام کریں۔

آخر آپ ﷺ کو ہم دل وجان سے کیوں نہ چاہیں؟

قیامت کے دن آپ ﷺ امت ہی کی فکر میں رہیں گے۔

سرِ محشر ترے لب پر

مری امت مری امت

حضرت انسؓ فرماتے ہیں: میں نے نبی ﷺ سے شفاعت کی درخواست کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: “میں کروں گا۔ قیامت کے دن مجھے پہلے پل صراط پر تلاش کرنا۔” میں نے عرض کیا: اگر وہاں نہ ملیں تو؟ فرمایا: “پھر میزان کے پاس تلاش کرنا۔” میں نے کہا: اگر وہاں بھی نہ ملاقات نہ ہوئی تو؟ فرمایا: “پھر حوض پر دیکھنا، میں ان تینوں مقامات پر ضرور موجود رہوں گا۔” (ترمذی)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿تمھارے پاس وہ رسول آیا ہے جو تم ہی میں سے ہے، تمھاری تکلیف اس پر بھاری ہے، وہ تمھارے بھلے کا خواہاں ہے اور مومنوں پر نہایت شفیق و مہربان ہے﴾ [التوبة: 128]۔

آخر آپ ﷺ کو ہم دل وجان سے کیوں نہ چاہیں؟

کیوں کہ انسان کا حشر اسی کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت کرتا ہے۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں: ایک شخص نے پوچھا: “قیامت کب آئے گی؟” آپ ﷺ نے فرمایا: “تم نے اس کے لیے کیا تیاری کی ہے؟” اس نے کہا: زیادہ نماز روزہ تو نہیں ہے، مگر اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے ضرور محبت رکھتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: “آدمی اسی کے ساتھ ہوگا جس سے محبت کرتا ہے۔” حضرت انسؓ کہتے ہیں: مسلمانوں کو اسلام کے بعد کبھی اتنی خوشی نہیں ہوئی جتنی اس بات پر خوش ہوئی۔ (ترمذی)

یہی کیفیت حضرت ثوبانؓ کی تھی۔ وہ ایک دن غمگین نظر آئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: “کیا بات ہے؟” انھوں نے عرض کیا: “یا رسول اللہ! کوئی مرض یا تکلیف نہیں، مگر جب آپ کو نہیں دیکھ پاتا ہوں تو سخت وحشت ہوتی ہے۔ پھر آخرت کو یاد کرتا ہوں تو ڈر لگتا ہے کہ وہاں آپ کو نہ پا سکوں گا؛ اگر جنت میں گیا بھی تو آپ کے مرتبے سے نیچے رہوں گا، اور اگر جنت میں داخل نہ ہو سکا تو پھر تو کبھی دیدار نہ ہو پائے گا۔” اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی:

﴿اور جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے تو وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے انعام فرمایا: انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین، اور یہ کتنے اچھے رفیق ہیں﴾ [النساء: 69]۔

سبحان اللہ! کس قدر احسانِ عظیم ہے اللہ کا! اک لفظِ محبت کا ادنی سا کرشمہ دیکھیے کہ آدمی کو اس کی بدولت اپنے محبوب کا ساتھ نصیب ہوجائے۔ صحابہ سے بڑھ کر آپ ﷺ کا عاشق اور جاں نثار کون ہوتا! یقینا ان کی خوشی اور ایک لمحے دیدار کے بغیر ان کی بے قراری بھی بجا تھی کہ محبوب کا چہرا ہی دلِ مضطر کا سہارا ہے۔

ہم اپنے دلوں میں محبتِ رسول ﷺ کا جائزہ لیں لیکن صرف زبانی جمع خرچی کی حد تک نہیں بلکہ آپ  ﷺ کی سنت کو اپنائیں اور آپ  ﷺ کے پیغام کو دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچائیں۔

چشم وابرو کے اشارے پر رہے قربان دل

زندگانی آپ کی خاطر کھپانا نعت ہے

عشق کے مضراب سے پھوٹے ہے نغمہ نعت کا

سازِ دل پر نغمۂ جاں گنگنانا نعت ہے

آخر آپ ﷺ کو ہم دل وجان سے کیوں نہ چاہیں؟

کیوں کہ یہی تو ایک نام ہے کہ جس کے زبان پر آنے سے پہلے ہی نطق زبان کے بوسے لینے لگے، پوری کائناتِ حسن سمٹ کر اس میں آجائے اور یہی تو وہ شخصیت ہے جس کی ذات مسکِ ختام، بات مرجعِ عام، فیض فیضِ دوام ہے، جس کی سیرت میں زندگی کا جمال جو سرتاپا کمال ہے، جس کی سیرت خُلدِ بریں تک افرادِ نوعِ انساں کی رہ نما اور معرفتِ الٰہی کے لیے قبلہ نما ٹھہری اور جس کی صورت آئینۂ کمالاتِ بشر، جس کے حسن کی حسنِ دو عالم زکات قرار پائی اور جس کی جہدِ مسلسل تعمیر وتنویرِ حیات، وہی جو سکینت کا ساماں، بہاروں کا عنواں ہے، وہی جو قبلۂ دل اور کعبۂ جاں، روحِ احساں اور جانِ ایماں ہے۔

وہ جس سے نور کے پیکر طہارت کی قَبائیں لیں

حسینانِ دو عالم جس کے چہرے کی بلائیں لیں

وہ قندیلِ حرم جس سے گُہر پارے ضیائیں لیں

وہ جس سے نور کی شمعیں چمکنے کی ادائیں لیں

وہ دل آرا، وہ جاں آرا، جبیں آرا، حسیں تارا

زمیں آرا، فلک آرا، جہاں آرا، وہ مہ پارا

ایسے محسنِ انساں، انیسِ دل وجاں، خیر خواہِ امم اور مسیحائے شامِ غم سے ہمیں آخر کیوں نہ محبت ہو اور اس پر ہم کیوں نہ جان ودل واریں؟!

صلاۃ اللہ وسلامہ دوما دوما علی الحبیب۔

مرکز تحفظ اسلام ہند کا دو روزہ چوتھا سالانہ مشاورتی اجلا س اختتام پذیر!

اتر پردیش کے اسکولوں میں ‘وندے ماترم’ ہوگالازمی : یوگی آدتیہ ناتھ کا اعلان