سود خوری ۔ اللہ اور اس کے رسول سے اعلان جنگ

سود کھانا حرام ہے، ہمارے یہاں زبان زد ہے لیکن سود دینا کیسا ہے ، اس کے بارے میں زبانیں عموماً خاموش رہتی ہیں، کیونکہ سود دینے میں مجبوری اور پریشانی کا نقشہ ہمارے ذہن و دماغ میں گردش کرنے لگتا ہے، اسی لیے سماج میں سود کھانے والے کو لوگ بری نظر سے دیکھتے ہیں، لیکن سود دینے والے کو معاشرہ میں برا نہیں سمجھا جاتا، حالاں کہ سود کھانے اور کھلانے والے دونوں پر احادیث میں وعیدیں موجود ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث مسلم شریف میں موجود ہے، جس میں سود دینے لینے والے ہی نہیں، بلکہ سود کے بارے میں جانتے ہوئے اس کی گواہی اور وثیقہ نویسی سب پر لعنت بھیجی ہے اور سب کو گناہ میں برابر کا شریک قرار دیا ہے، ابوداؤد و ابن ماجہ کی ایک روایت میں ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ کوئی بھی شخص سود کھانے سے بچ نہیں پائے گا کچھ نہیں تو اس کا غبار ہی اس کو لگ جائے گا۔

سود کی حرمت اگر ایک آیت یا ایک صحیح حدیث میں بیان کی گئی ہوتی تو بھی حرمت کے لیے کافی تھا لیکن یہ اس قدر برا عمل ہے کہ قرآن کریم کی دس آیات اور چالیس سے زیادہ احادیث میں سود خوری کی حرمت کو بیان کیا گیا ہے، اللہ ورسول کے ارشادات و فرمان کے بعد اجماع امت کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی لیکن مدارج کے اعتبار سے پوری امت کا اس پر اجماع ہے کہ سود خوری گناہ کبیرہ ہے، البتہ ضرورت و حاجت کی وجہ سے دینے والے کے معاملہ میں تھوڑی تخفیف ہو سکتی ہے، کیوں کہ بعض حالات میں سود دینے والے کی حیثیت مضطر کی ہوتی ہے اور مضطر کے لیے جس طرح مردار کا کھانا حرام ہو جاتا ہے ، اسی طرح اگر اس کا ارادہ اسلامی احکام سے بغاوت کا نہ ہوا اور وہ اس کا عادی نہ ہو گیا ہو تو مجبوری میں اس کی گنجائش نکل سکتی ہے۔

سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 275 کی یہ وعید دیکھیں ، جس میں سود خوروں کی کیفیت اور اس کے نتیجے میں دوزخی ہونے کی بات کہی گئی ہے، اللہ رب العزت نے فرمایا: جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ قیامت کے دن اس طرح اٹھیں گے جیسے شیطان کے لپٹ جانے کی وجہ سے انسان بدحواس ہو کر اٹھتا ہے، یہ حالت ان کی اس وجہ سے ہوگی کہ وہ خرید وفروخت کے معاملات اور سود کو یکساں سمجھ بیٹھے اور کہا کہ بیع (خرید و فروخت کے معاملات ) ربا (سود) کی ہی طرح ہیں ؛ حالاں کہ اللہ نے سود کو حرام اور بیع ( سوداگری) کو حلال قرار دیا ہے، اللہ کے حکم پہونچنے پر جو سود سے باز آگیا تو پہلے جو وہ کر چکا ہے اس کے لیے ہے اور (معافی) کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے، اگر اس نے پھر سے سود لینا شروع کیا تو وہ دوزخی ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات صاف کر دی ہے کہ وہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے اور کسی گناہ کے کام کرنے والے سے خوش نہیں ہوتا ۔ حضرت قتادہ نے فرمایا کہ سود خور قیامت کے دن پاگل اٹھائے جائیں گے، تاکہ لوگ پہچان لیں کہ یہ سود خور ہے، بعض روایات و آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ سود خور قیامت میں گرتا پڑتا، بدحواس ہوگا ، آگ اس کو میدان محشر تک گرتے پڑتے الٹتے پلٹتے ہانک کر لے جائے گی ۔

سورہ بقرہ کی 278 او 279 میں یہ بات کہی گئی ہے کہ ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اگر تم کو اللہ کے فرمان پر یقین ہے تو جس قدرسود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو اور اگر نہیں چھوڑتے تو اللہ اور اس کے رسول سے لڑنے کو تیار ہو جاؤ ، ظاہر ہے جو شخص اللہ ورسول سے جنگ کرے گا ، وہ کس طرح کامیاب ہوگا ، اس کی تباہی و بربادی یقینی ہے اور اس کا خاتمہ بالخیر ہوہی نہیں سکتا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات ہلاک کرنے والی چیزوں میں سے ایک سود خوری کو قرار دیا ہے (بخاری و مسلم ) معراج کی رات میں آقا صل اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے آدمی کو دیکھا، جو خون کی نہر میں تھا ، جب بھی وہ اس نہر سے نکلنا چاہتا ، کنارے پر کھڑا شخص اس کے منہ  پر پتھر مارتا، جس کے نتیجے میں وہ خون کی نہر میں اپنی پہلی جگہ پر جا پہونچتا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رفقاء سفر پوچھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ بتایا گیا کہ خون کی

نہر میں قید شخص سود خور ہے اور وہ اپنے کیے کی سزا پارہاہے ( نسائی ) حاکم نے ایک روایت نقل کی ہے کہ چار آدمی کو اللہ جنت میں داخل نہیں کریں گے، ان میں سے ایک سود کھانے والا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کے ستر گناہ بیان کیے ان میں سے سب سے ہلکا گناہ یہ بیان کیا کہ جیسے کوئی اپنی ماں سے زنا کرے، بعض روایت میں نکاح کا لفظ بھی آیا ہے کہ وہ اپنی ماں سے نکاح کرے (ابن ماجہ بیہقی ) آدمی سود کا ایک درہم کھاتا ہے تو اس کا گناہ ستر مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ ہے ( مسند احمد، طبرانی ) جب کسی گاؤں میں زنا اور سودی لین دین کا رواج ہو جاتا ہے تو اللہ ان پر قحط مسلط کر دیتا ہے ( حاکم ، مسند احمد ) شب معراج میں آپ نے یہ بھی دیکھا کہ بعض لوگوں کے پیٹ بڑے  مکانوں کی طرح ہیں، وہ آل فرعون کی گذرگاہ میں پڑے ہیں، صبح و شام آگ پر پیش کیے جاتے ہیں اور قیامت کبھی نہ قائم ہونے کی دعا کرتے ہیں، بعض روایات میں ہے کہ ان کے پیٹ سانپوں سے بھرے ہوئے ہیں ، حضرت جبرئیل کے دریافت کرنے پر فرمایا یہ آپ کی امت کے سود خور ہیں (مسند احمد ، ابن ماجہ ) سود خوری کی وجہ سے بندر اور خنزیر بنائے جانے ، زمین میں دھنسا دیے جانے، گھروں پر آسمان سے پتھر برسنے تک کی بات احادیث میں آئی ہے۔

یہاں پر یہ بات بھی سمجھ لینی ضروری ہے کہ سود ہے کیا چیز؟ ابن عربی نے احکام القرآن میں لکھا ہے :

 ” ہر وہ زیادتی جس کے مقابل کوئی مال نہ ہو، محض ادھار ہو اور اس کی میعاد مقرر ہو“ سود ہے ، امام جصاص نے اس کی تعریف کی ہے کہ ہر وہ قرض جس کو قرض دینے والے نے اس شرط پر قرض دیا ہو کہ قرض دار اس کو اصل قرض سے زیادہ دے گا۔ سود کہلاتا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی منقول ہے کہ جس قرض سے نفع حاصل کیا جائے وہ ربوا اور سود ہے، اس تعریف کی روشنی میں آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اسلام نے سود سے پاک معاشی نظام پر زور دیا تھا، لیکن ہمارا سارا معاشی نظام سود پر ہی منحصر ہے، اللہ رب العزت نے سود کے بارے میں کہا کہ نہ تم پر ظلم کیا جائے اور نہ تم کسی پر ظلم کرو لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ۔

یہ ظلم ضرورت کے وقت لوگوں کی ضرورتوں کا پورا نہ کرنا ہے، جب انسان سود کھانے لگتا ہے، خواہ وہ مہاجنی سود ہو یا بینک کا سود ، دوسروں کو قرض دینے کے معاملہ میں بخیل ہو جاتا ہے، وہ سوچتا ہے کہ انفرادی طور پر کسی کو دیں گے تو ماہانہ اتنا سود ملے گا، اس کی وجہ سے ایثار و سخاوت کا جذ بہ ختم ہو جاتا ہے، پریشان حال لوگوں سے سود کی شکل میں ناجائز فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور سب سے خراب بات یہ ہوتی ہے کہ دولت کی گردش جس پیمانے پر ہونی چاہیے وہ نہیں ہو پاتی ہے، اس کی رفتار رک جاتی ہے، بینک والوں کے لیے نہ ہو، لیکن جمع کرنے والوں کے حق میں ایسا ہی ہوتا ہے، لوگ بڑی بڑی رقموں کا فکس ڈپوزٹ کر دیتے ہیں اور اس سے آنے والے سود سے اپنا پیٹ بھرتے ہیں، یہ جہنم کی آگ سے پیٹ بھرنے کے مترادف ہے۔

سرمایہ دارانہ معاشی نظام نے سود کی قباحت لوگوں کے دلوں سے نکال دی ہے اور جن لوگوں کے دلوں میں تھوڑی بہت باقی ہے ، ان سے جب کسی عنوان سے سود کی رقم لے لی جاتی ہے تو اس کی شناخت اس شخص کے ذہن سے نکل جاتی ہے اور وہ سوچتا ہے کہ اچھا سود اس مصرف  میں خرچ کیا جا سکتا ہے۔

میں نے قاضی القضاۃ مولانا مجاہد الاسلام قاسمی کی زبانی بار بار سنا کہ جب امارت شرعیہ کی مرکزی عمارت کی تعمیر ہوئی تھی تو قاضی صاحب اور مولانا سید نظام الدین صاحب رحمہما اللہ نے کولکاتا کا سفر کیا ، ایک صاحب کے مہمان ہوئے ، مقصد بتایا تو انہوں نے ایک رات ضیافت کی صبح جب چلنے لگے تو انہوں نے بڑی خطیر رقم جس سے کم از کم نچلی منزل تیار ہو سکتی تھی ، خدمت میں یہ کہتے ہوئے پیش کیا کہ یہ سود کی رقم ہے، میری رقم جو بینک میں جمع ہے اس کا سود میں نے بھی استعمال نہیں کیا ، حساب کرنے پر اتنی رقم بنی ہے ، آپ اس سے دفتر کی عمارت بنوالیں، قاضی صاحب اور مولا نا سید نظام الدین  نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، آنکھوں آنکھوں میں اشارے ہوئے اور قاضی صاحب نے لینے سے صاف انکار کر دیا ، ان دونوں حضرات کا یہ عمل بتاتا ہے کہ فتوے کی زبان میں ممکن ہے اس کے استعمال کی کچھ شکلیں نکلتی ہوں لیکن ان شکلوں میں بھی اس کا خیال رکھنا چاہیے کہ سود کی قباحت امت مسلمہ کے دل سے نہ نکلے، یہاں یہ بات اچھی طرح ذہن نشیں کر لینی چاہیے اور شیطان کے مغالطہ میں نہیں آنا چاہیے کہ بینک کا سود حلال اور طیب ہے، اس موقع سے فطری طور پر یہ بات ذہن کام میں آتی ہے کہ سود کے بغیر موجودہ زمانہ میں مالیاتی نظام کیسے جاری رہ سکتا ہے، اس کے لیے اسلام کے معاشی اور اقتصادی نظام کا مطالعہ کرنا چاہیے۔

جموں کشمیر :مسلمانوں کے لیے وندے ماترم لازمی قرار دینا غیر اسلامی فعل، متحدہ مجلسِ علماء کی حکمنامہ واپس لینے کی اپیل

بھٹکل میں 9 نومبر کو عالمی کرنسی، اسٹامپس اور قدیم سکّوں کی ایک روزہ نمائش