الہٰ آباد ہائی کورٹ کا تاریخی فیصلہ،2007 کے رام پور سی آر پی ایف دہشت گرد حملہ کیس میں تمام پانچ مسلم ملزم بری

بالآخر اٹھارہ برسوں کے طویل انتظار، قید و اذیت، اور انصاف کے سست رفتار عمل کے بعد، الہٰ آباد ہائی کورٹ نے 2007 کے رام پور سی آر پی ایف کیمپ حملہ کیس میں گرفتار تمام پانچ مسلم نوجوانوں کو باعزت بری کر دیا۔
یہ فیصلہ نہ صرف ایک مقدمے کا اختتام ہے بلکہ ہندوستانی عدالتی و تفتیشی نظام پر ایک گہرا سوال بھی چھوڑ گیا ہے — آخر کیوں ہر بار بے گناہ مسلم نوجوانوں کو دہشت گرد ٹھہرا کر ان کی زندگیاں برباد کر دی جاتی ہیں؟
ہائی کورٹ کی ڈویژن بینچ جسٹس سدھارتھ ورما اور جسٹس رام منوہر نرائن مشرا پر مشتمل بنچ نے بدھ کو اپنے فیصلے میں ٹرائل کورٹ کے تمام سنگین فیصلے — بشمول قتل، ملک کے خلاف جنگ چھیڑنے اور یو اے پی اے (UAPA) کے تحت لگائے گئے الزامات — کو کالعدم قرار دے دیا۔
البتہ عدالت نے اسلحہ رکھنے کے ایک ضمنی الزام کو برقرار رکھا، جس کی سزا قیدی پہلے ہی کاٹ چکے ہیں۔
بری ہونے والوں میں شامل ہیں:
محمد شریف عرف سہیل، صباالدین عرف سحاب الدین، عمران شہزاد، محمد فاروق، اور جنگ بہادر عرف بابا خان۔
یہ وہی افراد ہیں جنہیں یوپی ایس ٹی ایف نے "دہشت گرد” قرار دے کر 18 سال قبل گرفتار کیا تھا، اور جن میں سے چار کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔
عدالت نے قرار دیا کہ استغاثہ کا پورا مقدمہ خود اپنی تضادات کے بوجھ تلے دب گیا۔گواہوں کے بیانات بدلتے رہے، شناختی شواہد غائب تھے، اور سارا کیس گھڑی ہوئی کہانیوں، فرضی گواہوں، اور مشکوک تفتیش پر مبنی تھا۔

ججز نے کہا کہ "ابتدائی مرحلے میں گواہوں نے صاف کہا کہ وہ ملزموں کو نہیں جانتے، مگر عدالت میں پیشی کے وقت وہ اچانک سب کے نام بتانے لگے — یہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ گواہ تیار کیے گئے تھے۔”
عدالت نے شناختی پریڈ (TIP) نہ کرانے کو استغاثہ کے لیے مہلک ثابت قرار دیا۔
فیصلے میں کہا گیا:
"جب ملزم اجنبی ہوں اور شناختی پریڈ نہ ہو، تو عدالت میں پہلی بار کی گئی شناخت ناقابلِ اعتبار سمجھی جاتی ہے۔”
عدالت نے فنگر پرنٹس، بالی اسٹک رپورٹس اور ضبط شدہ ہتھیاروں کے بارے میں بھی سخت مشاہدہ کیا۔
فیصلے کے مطابق، "فنگر پرنٹس تین ماہ تک کہاں محفوظ رکھے گئے، اس کا کوئی ریکارڈ نہیں — یہ خود شواہد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا ثبوت ہے۔”
اسی طرح عدالت نے کہا کہ نہ تو ضبط شدہ کارتوس، نہ ہتھیار، اور نہ ہی گولیوں کا کوئی باقاعدہ اندراج کیا گیا۔
"جب ثبوت محفوظ ہی نہیں، تو کسی ایف ایس ایل رپورٹ کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔”
جمیعت علمائے ہند کی لیگل کمیٹی، جس نے برسوں تک ان قیدیوں کو قانونی مدد فراہم کی، نے فیصلے کو "اخلاقی فتح” قرار دیا۔
کمیٹی کے مطابق:”ملزموں نے اٹھارہ برس جیل میں گزار دیے، اب وہ جلد رہا ہوں گے۔”
جمیعت کے صدر مولانا ارشد مدنی نے کہا:”عدالت نے واضح کر دیا کہ یہ افراد کسی بھی دہشت گردانہ سرگرمی میں ملوث نہیں تھے۔ ٹرائل کورٹ نے جس بنیاد پر سزائے موت سنائی تھی، وہ سراسر غلط تھی۔”
انہوں نے مزید کہا کہ جمیعت سپریم کورٹ میں باقی 10 سالہ اسلحہ قانون کی سزا کے خلاف بھی اپیل کرے گی تاکہ ان کا نام مکمل طور پر صاف ہو جائے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان اور سماجی رہنما ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ "یہ صرف پانچ افراد کی بریت نہیں، بلکہ نظامِ انصاف کی اخلاقی ناکامی ہے۔ جن افسروں نے جھوٹے مقدمات گھڑے، انہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔”
انہوں نے سوال اٹھایا کہ "جب کسی کی زندگی کے 18 سال برباد کر دیے جائیں، تو اس کا جواب کون دے گا؟”ڈاکٹر الیاس نے یہ بھی کہا کہ عدالتی تعصب کا رویہ مسلم ملزمان کے ساتھ خاص طور پر سخت ہے۔”ملزم مسلمان ہو تو ضمانت نہیں، شواہد نہ ہوں تب بھی سزا۔ یہی رویہ انصاف کے اصولوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔”
انہوں نے مالیگاؤں دھماکوں کے مقدمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "جہاں اصل مجرم آزاد پھر رہے ہیں، وہاں بے گناہ مسلمان برسوں قید میں سڑتے ہیں۔”
🔹 سوشل میڈیا پر ردعمل: “18 سال بعد سچ کو سچ ماننے میں عدالت نے 18 سال لگا دیے”
سینئر صحافی احمداللہ صدیقی نے لکھاکہ "ہماری عدلیہ کو ایک جھوٹ کو جھوٹ ماننے میں اٹھارہ سال لگے۔”
جبکہ محقق اظہر حسن ندوی نے کہاکہ "جب انصاف بیس تیس برس بعد ملے تو یہ انصاف نہیں رہتا، تاخیر بھی ظلم کی ایک شکل ہے۔”
سماجی کارکن ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب نے کہاکہ فیصلہ خوشی سے زیادہ درد کا پیغام ہے ،ایک بار پھر ثابت ہوا کہ مسلم نوجوانوں کو فرضی مقدمات میں پھنسانا ایک معمول بن چکا ہے۔”

بھٹکل سے تعلق رکھنے والے میاں بیوی بنگلور میں پیش آئے سڑک حادثہ میں جاں بحق ، تیز رفتار ایمبولنس نے کئی سواریوں کو روند ڈالا

اردو دنیا کی سب سے خوبصورت زبان، ہندو مسلم ہم آہنگی ملک کی ترقی کی ضامن: کرن رجیجو