تحریر: محمد طلحہ سِدّی باپا ، بھٹکل کرناٹک
بنگلورو کے دل میں ایک ایسا منظر دیکھنے کو ملا جس نے ایمان، فن اور ٹیکنالوجی کو ایک ہی دائرے میں لا کھڑا کیا۔ چار دن تک عیدگاہ اکبری کے قریب بی ڈی اے گراؤنڈ میں ہزاروں افراد کی قطاریں لگی رہیں۔ یہ کوئی عام نمائش نہیں تھی بلکہ ایک ایسا روحانی اور بصری تجربہ تھا جو دیکھنے والوں کو چودہ سو سال پیچھے لے جاتا تھا — ایک ایسی دنیا میں جہاں نبیِ کریم ﷺ کی حیاتِ طیبہ کو روشنی، آواز اور فن کے امتزاج سے محسوس کیا جا سکتا تھا۔
یہ نمائش اکبری مسجد کمیٹی کے زیرِ اہتمام اور مولانا خالد بیگ ندوی کی قیادت میں منعقد ہوئی۔ مولانا کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد نئی نسل کے دلوں کو نبی ﷺ کی میراث سے جوڑنا اور سیرت کو جدید ذرائع سے قابلِ فہم بنانا ہے۔ بنگلورو کی مختلف مساجد اور درجنوں رضاکاروں نے صرف ایک مہینے کے اندر اس پورے سیٹ اپ کو مکمل کیا، جس نے میدان کو ایک “لائیو میوزیم” میں بدل دیا۔ داخل ہوتے ہی یوں محسوس ہوتا کہ وقت پلٹ گیا ہو، مکہ و مدینہ کے مناظر آنکھوں کے سامنے زندہ ہو گئے ہیں۔
دنیا بھر میں آج نمائشیں صرف تجارت یا تفریح کا ذریعہ نہیں رہیں بلکہ علم اور شعور پھیلانے کا ایک مؤثر ذریعہ بن چکی ہیں۔ بنگلورو کی یہ بین الاقوامی سیرت نمائش بھی اسی رجحان کی ایک روحانی توسیع تھی۔ یہاں مقصد کچھ بیچنا نہیں بلکہ یہ دکھانا تھا کہ نبیِ رحمت ﷺ کی سیرت آج بھی انسانیت کے لیے توازن، عدل اور اخلاق کی کامل مثال ہے۔ ایسے وقت میں جب نفرت اور تعصب کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، اس نمائش نے تخلیق اور علم کی زبان میں محبت اور رحمت کا پیغام دیا۔
حالیہ دنوں میں شمالی ہند میں “آئی لَو محمد ﷺ” کے نعرے پر پیدا ہونے والے تنازعے نے یہ دکھایا کہ محبت کے اظہار کو بھی کس طرح سیاست کے رنگ میں رنگ دیا جاتا ہے۔ مگر بنگلورو کے اہلِ ایمان نے اس کا جواب احتجاج یا غصے سے نہیں بلکہ تعلیم اور تخلیق سے دیا۔ ان کے نزدیک نبی ﷺ سے محبت کا اصل تقاضا یہ ہے کہ ان کے پیغام کو علم، کردار اور عمل کی زبان میں پیش کیا جائے۔ جیسا کہ ایک منتظم نے کہا’’ ہم چاہتے تھے کہ لوگ نبی ﷺ کی سیرت کو صرف پڑھیں نہیں، بلکہ محسوس کریں-‘‘
نمائش کا سب سے حسین پہلو تاریخ اور ٹیکنالوجی کا امتزاج تھا۔ قدیم حصے میں مسجدِ نبوی ﷺ کو کھجور کے ستونوں اور مٹی کی دیواروں کے ساتھ دوبارہ تخلیق کیا گیا، نبی ﷺ کے حجرہ مبارک کی سادہ مگر پُراثر جھلک دکھائی گئی، غارِ حرا اور غارِ ثور کے ماڈلز نے وحی اور ہجرت کی یاد تازہ کر دی، جبکہ حضرت ابراہیمؑ کے دور کے کعبہ کا منظر توحید کے تسلسل کی علامت بن کر دلوں کو چھو گیا۔ دوسری جانب جدید حصے میں 3D اینیمیشنز، AI اسکرینز، ورچوئل ریئلٹی ٹورز اور آڈیو ویژول تھیٹر کے ذریعے نبی ﷺ کی زندگی کے مختلف مراحل کو جدید زبان میں پیش کیا گیا۔ یوں مٹی اور روشنی، سادگی اور سائنس کا حسین امتزاج ایک خاموش پیغام دے رہا تھا کہ ایمان اور جدیدیت ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں۔
یہ روحانی تجربہ صرف میدان تک محدود نہیں رہا۔ سوشل میڈیا پر Facebook، Instagram اور YouTube کے ذریعے یہ پیغام لاکھوں لوگوں تک پھیل گیا۔ زائرین نے اپنے تاثرات ویڈیوز اور ریلس کی صورت میں شیئر کیے، اور چند دنوں میں #SeerahExhibitionBengaluru لاکھوں ویوز حاصل کر چکا تھا۔ اس طرح ایک عام نمائش ڈیجیٹل دور کی دعوت میں بدل گئی جہاں عام لوگ اپنے تاثرات سے مبلغ بن گئے۔
افتتاحی تقریب میں ریاستی وزراء بی زیڈ ضمیر احمد خان، رحیم خان، ایم ایل اے حارث اور نصیر احمد شریک ہوئے۔ اس موقع پر نامور علماء مولانا سید بلال حسنی ندوی (ناظم ندوۃ العلماء، لکھنؤ)، مولانا محمد الیاس ندوی (بانی مولانا ابوالحسن علی ندوی اسلامک اکیڈمی بھٹکل)،— بھی موجود تھے۔ یہ منظر مذہبی، علمی اور سماجی قیادت کے اتحاد کا مظہر تھا۔ البتہ اگر مسلم قائدین اپنے غیر مسلم رفقاء کو بھی مدعو کرتے تو یہ تجربہ بین المذاہب تعلقات کے فروغ کے لحاظ سے اور زیادہ بامعنی ثابت ہوتا۔
ایک زائر نے کہا کہ میں نے سیرت کی کتابیں ضرور پڑھیں، مگر جب نبی ﷺ کا حجرہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تو سادگی کا مفہوم سمجھ آیا۔ کسی اور نے کہا: “جب مسجدِ نبوی کے ماڈل کے سامنے کھڑا ہوا تو محسوس ہوا کہ مدینہ بنگلورو آ گیا ہے۔
میری رائے میں یہ نمائش ایک ایسے ماڈل کے طور پر دیکھی جا سکتی ہے جسے مستقبل میں ایک موبائل یا مستقل سیرت میوزیم کی شکل دی جائے — ایسا میوزیم جو ملک کے مختلف شہروں کا دورہ کرے اور سیرت کے پیغام کو علم، فن اور مکالمے کے ذریعے عام کرے۔ اس میں ہجرتِ مدینہ کے راستے، صلحِ حدیبیہ کے تاریخی مناظر، احد و خندق کے معرکے، اور اُمِّ معبدؓ کی گواہی جیسے واقعات کو شامل کیا جا سکتا ہے تاکہ سیرت کے اخلاقی و انسانی پہلو عام فہم انداز میں سامنے آئیں۔
ایسا منصوبہ نہ صرف مسلمانوں کے لیے باعثِ فخر ہوگا بلکہ ہمارے برادرانِ وطن کے لیے بھی اسلام کی اصل روح عدل، رحمت اور انسان دوستی کو سمجھنے کا موقع فراہم کرے گا۔ اس طرح یہ نمائش ایک دعوتی اور فکری پلیٹ فارم بن سکتی ہے جو کثیرالمذہبی معاشرے میں محبت، علم اور فہم کے ذریعے نبیِ رحمت ﷺ کے پیغام کو عام کرے۔
چار دن کی یہ نمائش ختم ہوئی مگر اس کے اثرات باقی رہ گئے۔ یہ تجربہ یاد دلاتا ہے کہ نبیِ کریم ﷺ نے دلوں کو طاقت یا غصے سے نہیں بلکہ حلم، علم اور کردار سے بدلا۔ یہی راستہ آج بھی امت کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
نمائش سے یہ پیغام ملتا ہے کہ اگر ہم علم اور فن کے جدید ذرائع سے سیرت کو پیش کریں، تو محبت، فہم اور اعتماد کی نئی فضا پیدا ہو سکتی ہے۔ نبی ﷺ کا پیغام آج بھی وہی ہے ۔ رحمت، عدل اور انسان دوستی۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہمیں اسے آج کے زمانے کی زبان میں پیش کرنا ہے۔




