بیٹے کو عاق کرنے پر مجبور والد کی کہانی

مفتی اشفاق قاضی

(مفتی جامع مسجد بمبئی و بانی فیملی فرسٹ گائیڈنس سینٹر)

خون کے رشتے اللہ عطا ہیں، وہ رشتے جو انسان کے دل میں زندگی کی حرارت بھرتے ہیں، مگر جب ان ہی رشتوں میں غلط فہمیاں گھر جائے، چھوٹی چھوٹی باتیں بڑی لگنے لگیں،محبت کے بجائے نفرت کا رویہ بیچ میں دراڑ ڈال دے تو وہ زخم صدیوں میں بھی بھر نہیں پاتے، اسی طرح باپ اور بیٹے کا رشتہ سب سے مضبوط، سب سے حساس، اور کبھی کبھی سب سے دردناک ایموشنل کا رشتہ ہوتا ہے، جو کہانی ہم پیش کرنے جارہے ہیں وہ ایک باپ کی ہے جو اپنی ہی اولاد سے اس قدر ٹوٹ چکا تھا کہ "عاق” کرنے کا فیصلہ کر چکا تھا، ان کے قریبی عزیز، ایک صاحب اپنے چچا خالد لکڑا والا (فرضی نام) کا حال بیان کرنے آئے، آواز میں بےبسی تھی، چہرے پر تھکن، بولے:”چچا اپنے بیٹے کے رویے سے اس قدر نالاں ہیں کہ اب وہ عدالت، وکیل اور کاغذوں تک جا پہنچے ہیں، کہتے ہیں بس، اب میرا اس سے کوئی تعلق نہیں، میں اسے اپنی جائیداد سے بے دخل کرکے عاق کردونگا”۔

میری زبان سے بےاختیار نکلا:

"اللہ رحم کرے، شریعت میں عاق کرنے کی گنجائش کہاں ہے؟ ہم ان سے ملیں گے، بات سمجھیں گے، ان شاء اللہ دلوں کو جوڑنے کی کوشش کریں گے۔” چنانچہ اپریل ۲۰۲۲ میں خالد صاحب سینٹر آئے، کہولت کی عمر کا ایک باپ، چہرے پر برسوں کی مایوسی کا سایہ، آنکھوں سے پریشانی مترشح تھی، وہ بولے اور بولتے چلے گئے، "مفتی صاحب! میں تھک گیا ہوں، بیٹے کے لیے اپنی زندگی لگا دی، مکان، فلیٹ، دکان، گودام، سب کچھ بنایا تاکہ وہ سنبھالے، لیکن وہ۔۔۔ بس غفلت، ضد، اور لاپروائی میں ہے، میں نے اس کو بیس پچیس سال پالا، محنت کی، اب تو چاہتا ہوں کہ وہ میری محنت کا بوجھ تھامے، مگر نہیں۔۔۔ اسے نہ وقت کی پرواہ، نہ دکان کی فکر، نہ ذمہ داری کا احساس ہے۔” ان کی آواز کبھی بلند ہورہی تھی، کبھی پست، دوران گفتگو کبھی لہجے میں شکوہ تو کبھی بھراس، گویا ہر لفظ کے پیچھے ایک باپ کا ٹوٹا ہوا دل دھڑک رہا تھا، میں نے ان کے بیٹے کو طلب کیا تاکہ حقیقی مسائل کا ادراک ہوسکے، ۲۹ جون ۲۰۲۲ کو بیٹا بھی سینٹر میں داخل ہوا۔۔۔۔۔دروازہ کھلا تو ایک جوان اندر آیا، چہرے پر نوجوانی کا خمار، آنکھوں سے نفرت و اداسی جھلک رہی تھی، جب بات شروع کی تو جیسے برسوں کا بوجھ زبان سے نکل آیا، کہنے لگا "میں ذہین تھا مفتی صاحب، لیکن گھر کے جھگڑوں نے میرا دل توڑ دیا، ابا سخت ہیں، ہر بات میں ڈانٹ ڈپٹ، ہر روز طعنہ، کبھی محبت سے بات نہیں کی، ان کے نزدیک میں ہمیشہ ناکام و نکما رہا۔”پھر ذرا رُک کر آہ بھری اور کہنے لگا: "ایک وقت تھا جب میں نے خود کو بدلنے کی کوشش کی، چلے کی جماعت میں گیا، نماز، دین، سب سیکھا، واپس آیا تو ایک دم مطیع و فرمانبردار بن گیا چاہا کہ ابا خوش ہوں، انہوں نے میری شادی بھی طے کی، مگر شرطوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔۔۔‘وقت پر دکان آئے گا تو پیسے ملیں گے، ایسے کرے گا، ویسے کرے گا تب بات ہوگی وغیرہ وغیرہ’، بیٹا روداد بیان کرنے لگا: "مفتی صاحب، میں انسان ہوں روبوٹ نہیں، ان شرطوں نے میری زندگی اجیرن کر دی، اب بس ڈپریشن رہ گیا ہے، نہ دن کو سکون، نہ رات کو چین کی نیند میسر ہے، کبھی دن بھر سوتا ہوں تو کبھی رات رات بھر جاگتا اور دوستوں کے ساتھ شب بیداری کرتا ہوں۔” بیٹے کی آنکھوں میں نمی تھی، آواز ٹوٹ رہی تھی، مایوسانہ لہجے میں کہنے لگا : "کئی بار دل چاہا کہ یا تو ابا مر جائیں یا میں ہی اس دنیا کو چھوڑ جاوں تاکہ یہ خانہ جنگی ختم ہو جائے۔” کمرے میں سناٹا چھا گیا، وہ جملہ دل کے اندر اتر گیا، ایک بیٹا اپنے جیتے جاگتے باپ کے بارے میں یہ سوچ رہا ہے، یہ شکست صرف ایک گھر کی نہیں، پوری نسل کی تھی، پھر ہم نے والدہ شاہین (فرضی نام) سے بات کی، انہوں نے اپنے نکاح کے ابتدا کی داستان سنائی، جوائنٹ فیملی کے مظالم، شوہر کے سرد رویّے، اور سسرالی رشتوں کے طعنہ کی انتہائیں بیان کیں، انہوں نے کہا، "میرے بیٹے کا دل باپ سے نہیں، ان کے غصے سے بھرا ہوا ہے، وہ اب پیار کو ترس رہا ہے۔” مگر پھر کہنے لگی کہ ہم نے تدبیر کی تاکہ اس جنگ کا کچھ خاتمہ ہوجائے، دکان کو دو حصوں میں بانٹا، آدھا والد ، آدھا بیٹے کا۔سوچا شاید ذمہ داری الگ ہونے سے رنجش کم ہوگی مگر زخم گہرے تھے، مرہم ثابت نہ ہوئے، نفسیاتی دباؤ بڑھتا گیا۔ تفصیلات سے علم ہوا کہ ان کے حالات یہاں تک پہنچ گئے کہ والد، والدہ اور بیٹے، تینوں نے سائیکاٹرسٹ سے علاج شروع کروایا، ڈاکٹر ماچس والا سمیت کئی ڈاکٹروں کی ادویات لیں مگر روح کے زخم دوا سے نہیں، دعا سے بھرا کرتے ہیں، ان کے ساتھ کئی نشستیں کی گئیں، ہم نے بیٹے کے سامنے قرآن کے الفاظ رکھے: ترجمہ اور تمہارے رب نے فیصلہ کردیا ہے تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو” (بنی اسرائیل ۲۳)، اسی طرح نبی ﷺ کا فرمان کہ تم اور تمہارا مال تمہارے والد کا ہے( سنن ابن ماجہ)۔ والد کو سمجھایا کہ بیٹے کو عاق نہیں کیا جاتا، بلکہ گلے سے لگایا جاتا ہے، مشفقانہ رویہ اختیار کرنے کی ترغیب دی اور بیٹے کو یاد دلایا کہ والد کا دل جیتنا جنت کا راستہ ہے، پھر الحمدللہ افہام و تفہیم، کی کاؤنسلنگ و میٹنگ کے بعد ایک دن معجزہ ہوا، خالد صاحب سینٹر آئے، چہرے پر برسوں بعد ایک روشنی تھی، کہنے لگے:”مفتی صاحب! ہمارے درمیان نفرت کی خلیج ختم ہوگئی ہے، محبت و الفت نے جگہ لے لی، غلط فہمیاں دور ہوچکی ہیں، الحمدللہ، اب حال یہ ہے کہ آج وہی باپ بیٹا جو کبھی ایک دوسرے سے فرار چاہتے تھے، اب ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے، گھر میں سکون لوٹ آیا ہے، محبت کی خوشبو پھر سے گوندھ دی گئی ہے، اللہ ان کے درمیان مودّت و رحمت قائم رکھے۔ آمین۔

فیملی فرسٹ گائیڈنس سینٹر یہی وہ جگہ ہے جہاں بکھرے رشتوں کو جوڑا جاتا ہے، ٹوٹے دلوں پر مرہم رکھا جاتا ہے، اور نفرتوں کے بیچ محبت کا درخت اگایا جاتا ہے، اگر آپ کے آس پاس بھی کوئی خالد اور اس کا بیٹا ہو، تو خاموش مت رہیں، انہیں آواز دیں، ان کے دل تک پہنچیں، کیونکہ رشتے ٹوٹنے کے بعد صرف گھر نہیں اجڑتے، انسان کے اندر کا سکون بھی مر جاتا ہے۔

حلال مصنوعات پر نیا سیاسی کھیل ، یوگی کا حلال مصنوعات کی فروخت کو لوجہاد سے جوڑنے کاغیرذمہ دارانہ بیان

ٹیم انڈیا میں سرفراز خان کو شامل نہ کرنے پرتنازع: مذہبی بنیاد کا الزام