بھٹکل (فکروخبر نیوز) جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں منعقدہ دو روزہ سیمینار کی دوسری نشست میں مولانا عمیر الصدیق ندوی نے مرشد الامت حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندویؒ کی حیات و خدمات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مولانا رابعؒ کی پوری زندگی محبت، شفقت اور ایثار کا پیکر تھی۔ ان کی ذات گویا "محبت کا دوسرا نام” تھی۔
مولانا عمیر الصدیق ندوی نے کہا کہ جامعہ اسلامیہ بھٹکل کی جانب سے منعقدہ یہ سیمینار پورے ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں اپنی نوعیت کا منفرد پروگرام ہے جس میں طلبہ نے اپنے اساتذہ کی نگرانی میں ایسی عالمانہ اور فکری مقالات پیش کیے جو یقیناً حیرت انگیز ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’’میں نے مولانا علی میاں ندویؒ اور مولانا رابع حسنیؒ دونوں کے زمانے دیکھے ہیں، لیکن اس طرح کا جامع اور بامقصد علمی پروگرام پہلی بار دیکھنے کو ملا ہے۔ یہ جامعہ اسلامیہ بھٹکل اور اس کے اساتذہ کے لیے باعثِ فخر ہے۔‘‘
مولانا نے کہا کہ مولانا رابع حسنی ندویؒ کی ذات میں ندوۃ العلماء کی اصل روح جلوہ گر تھی۔ انہوں نے ہمیشہ محبت کو اپنا پیغام بنایا چاہے وہ سامنے مسلمان ہو یا غیر مسلم
انہوں نے بتایا کہ ’’مولانا کی مسکراہٹ ایمان کی علامت تھی۔ وہ کسی سے بھی بات کرتے تو ان کے چہرے پر وہی بشاشت نظر آتی جو صاحبِ ایمان کے چہرے پر ہوتی ہے۔‘‘
مولانا عمیر نے مزید کہا کہ ’’ہم جیسے عام طلبہ بھی ان کے قریب جا کر محسوس کرتے کہ وہ ہمیں اپنے بیٹوں کی طرح چاہتے ہیں۔ وہ ہمیں گلے لگاتے، ہاتھ پکڑ کر بٹھاتے ، یہ محبت آج کی دنیا میں سب سے بڑی ضرورت ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ندوۃالعلماء صرف ایک تعلیمی ادارہ نہیں بلکہ محبت، اخوت اور دلوں کو جوڑنے کا مرکز ہے۔ مولانا رابعؒ نے ہمیشہ یہی سبق دیا کہ جہاں جاؤ، محبت کا پیغام ساتھ لے کر جاؤ۔
مولانا عمیر الصدیق ندوی نے گفتگو کے دوران مولانا سید سلیمان ندویؒ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ندوہ کا سب سے بڑا پیغام ہمیشہ سے دلوں کو جوڑنے کا رہا ہے، اور مولانا رابعؒ اس پیغام کی سب سے کامل مثال تھے۔‘‘
انہوں نے اپنے خطاب کے اختتام پر کہا کہ ’’مولانا رابعؒ کی زندگی کا خلاصہ ایک جملے میں یہ ہے کہ وہ محبت کی چلتی پھرتی تصویر تھے۔ ان کی یادیں اور تعلیمات ہمیشہ امت کے لیے مشعلِ راہ رہیں گی۔




