پونے: مہاراشٹر کے شہر پونے میں اس وقت سیاسی طوفان برپا ہو گیا ہے جب بی جے پی کی رکن پارلیمان میڈھا کلکرنی کی قیادت میں ہندو تنظیموں کے ایک گروہ نے تاریخی شانیوار واڑہ قلعہ میں ایک مبینہ “تطہیری تقریب” (Purification Ceremony) انجام دی۔
یہ اقدام اس وقت سامنے آیا جب سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوا جس میں چند مسلم خواتین کو اسی مقام پر نماز ادا کرتے دیکھا گیا تھا۔
وائرل ویڈیو کے بعد ہندو تنظیموں نے شانیوار واڑہ کے مقام پر ’گاؤموتر‘ (گائے کا پیشاب) سے صفائی کی اور ’شیو وندنا‘ کی۔ اس موقع پر بی جے پی کی ایم پی میڈھا کلکرنی نے دعویٰ کیا کہ “یہ عمل ہر پونے کے شہری کے لیے تشویش اور غصے کا باعث ہے۔”
انہوں نے کہا:“شانیوار واڑہ نماز پڑھنے کی جگہ نہیں ہے۔ انتظامیہ کو سخت کارروائی کرنی چاہیے۔ ہم نے شیو وندنا کے ذریعے جگہ کو پاک کیا، البتہ جب ہم نے بھگوا جھنڈا لہرانے کی کوشش کی تو حکام نے روک دیا۔ یہ لوگ کہیں بھی نماز پڑھ کر بعد میں وقف املاک میں شامل کر دیتے ہیں۔ ہندو برادری چوکس ہے۔”
مسلمانوں کے خلاف بکواس کرکے سرخیوں میں رہنے والے مہاراشٹر کے وزیر نتیش رانے نے بھی اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ:“شانیوار واڑہ بہادری کی علامت ہے۔ اگر ہندو حاجی علی میں ہنومان چالیسا پڑھیں تو کیا مسلمانوں کے جذبات مجروح نہیں ہوں گے؟ جو عبادت گاہ ہے، وہاں نماز ادا کی جائے۔ اگر ہنومان چالیسا حاجی علی میں پڑھا جائے تو پھر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔”
دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں نے بی جے پی ایم پی کے اقدام کو فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی قرار دیا۔
این سی پی (اجیت پوار گروپ) کی ترجمان روپالی پاٹل تھومبڑے نے پولیس سے مطالبہ کیا کہ کلکرنی کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔
انہوں نے کہا:“وہ ہندو بمقابلہ مسلم کا مسئلہ کھڑا کر رہی ہیں، حالانکہ پونے میں دونوں برادریاں ہمیشہ ہم آہنگی سے رہتی ہیں۔”
اسی دوران اے آئی ایم آئی ایم کے ترجمان وارث پٹھان نے بی جے پی پر الزام لگایا کہ وہ “ملک کے سیکولر اور کثرت پسند کردار کو تباہ کر رہی ہے۔”
ان کے بقول:“اگر چند مسلم خواتین نے جمعہ کے دن چند منٹ کے لیے نماز پڑھی تو اس میں کیا مسئلہ ہے؟ ہم نے کبھی اعتراض نہیں کیا جب ہندو افراد ٹرینوں یا ایئرپورٹ پر گربا کرتے ہیں۔ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے محفوظ مقامات سب کے لیے ہیں۔ آپ کو تطہیر اپنی سوچ کی کرنی چاہیے، جس میں نفرت بھری ہوئی ہے۔”
پولیس کے مطابق، اے ایس آئی افسر کی شکایت پر نامعلوم مسلم خواتین کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے جنہوں نے قلعہ میں نماز ادا کی تھی۔
شانیوار واڑہ چونکہ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (ASI) کے زیرِ تحفظ ہے، اس لیے پولیس نے وہاں سیکورٹی بڑھا دی ہے۔
پولیس ترجمان کے مطابق“یہ ایک اے ایس آئی کے زیرِ حفاظت تاریخی مقام ہے۔ جو شکایت موصول ہوئی ہے، اسی کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ کوئی بھی شخص اے ایس آئی کے محفوظ علاقوں میں داخل نہ ہو۔ سیکیورٹی میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں ہونے دی جائے گی۔”
شنیوارواڑہ 18ویں صدی میں پیشوا سلطنت کا مرکز تھا اور آج بھی مراٹھا تاریخ کا اہم علامتی مقام سمجھا جاتا ہے۔
لیکن حالیہ تنازعے نے ایک بار پھر مذہبی رواداری اور سیاسی انتہا پسندی کے بیچ لکیر کو اجاگر کر دیا ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق، “یہ واقعہ مذہب کے نام پر عوامی جذبات بھڑکانے اور انتخابی سیاست کے زاویے سے فائدہ اٹھانے کی ایک تازہ مثال ہے۔”




