تحریر : محمد طلحہ سدی باپا
12 اکتوبر 2025 کو عالمِ اسلام نے ایک ایسے عالِم، مصلح اور انسانِ خدمت گُزار کو الوداع کہا جو اپنی خاموشی میں پُر اثر، اور اپنے عہدوں کے باوجود سراپا انکسار تھا — ڈاکٹر عبداللہ عمر نصیفؒ۔
1939 میں جدہ میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر نصیفؒ نے نہ صرف سعودی عرب بلکہ پوری مسلم دنیا میں علم، تحقیق اور انسانی خدمت کا ایک دیرپا نشان چھوڑا۔
علم و قیادت کا سفر
انہوں نے کنگ سعود یونیورسٹی سے کیمیا میں گریجویشن (1964) کیا اور بعد ازاں یونیورسٹی آف لیڈز (برطانیہ) سے جیولوجی میں پی ایچ ڈی (1971) حاصل کی۔ وطن واپسی کے بعد کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی جدہ سے وابستہ ہوئے اور کچھ ہی عرصہ میں اس کے وائس چانسلر (Vice Chancellor) کے عہدے تک پہنچے۔
ان کے عہدِ قیادت میں یونیورسٹی نے تحقیق، سائنسی شعور اور اسلامی اخلاقی اقدار کا حسین امتزاج دیکھا۔ وہ علم کو دولت نہیں، امانت سمجھتے تھے — اور کہتے تھے کہ “علم اگر انسان کی خدمت نہ کرے تو بوجھ بن جاتا ہے۔”
عالمی سطح پر خدمت کا سفر
1983 سے 1993 تک وہ رابطہ عالمِ اسلامی (Muslim World League) کے سیکریٹری جنرل رہے۔ اس دوران رابطہ نے انسانیت کی فلاح، دعوتِ دین، تعلیم اور سماجی بہبود کے شعبوں میں غیر معمولی وسعت حاصل کی۔
اسی دور میں ان کی قیادت میں وہ فلاحی منصوبہ سامنے آیا جسے "سنابلُ الخیر” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے — یعنی نیکی کے خوشے، بھلائی کی بالیاں۔
ان کا یقین تھا کہ نیکی کا ہر چھوٹا بیج اگر اخلاص سے بویا جائے تو پوری امت کے لیے خیر و رحمت کی فصل بن جاتا ہے۔
وہ نوجوانوں کی تربیت اور قیادت کے بھی محسن تھے۔ اسکاؤٹنگ کی عالمی تحریک سے وابستہ رہتے ہوئے انہوں نے خدمتِ خلق کو قیادت کی بنیاد قرار دیا۔ انہی خدمات کے اعتراف میں انہیں عالمی اسکاؤٹنگ کا سب سے بڑا اعزاز “برونز وولف” عطا کیا گیا۔
اسی طرح وہ مجلسِ شوریٰ سعودی عرب کے نائب صدر بھی رہے اور انہیں خدمتِ اسلام کے لیے شاہ فیصل ایوارڈ (1991) اور شاہ عبدالعزیز میڈل (2004) سے نوازا گیا۔
ایک ذاتی ملاقات اور یادگار واقعہ
مجھے یہ سعادت حاصل ہوئی کہ میں نے ڈاکٹر نصیفؒ سے دو مرتبہ اُن کے نئے گھر میں ملاقات کی — ڈاکٹر اویس رکن الدین المعروف ڈاکٹ خواجہ کے ہمراہ۔ اُس وقت تک ان کا آبائی مکان بیت نصیف پرانا جدہ (البلد) سوق العلوی میں تاریخی ورثہ قرار دیا جاچکا تھا۔
اتنے بلند منصب اور وسیع علمی مقام کے باوجود ڈاکٹر نصیفؒ کی شخصیت میں انکسار، قربت، شفقت اور خلوص جھلکتا تھا۔
وہ نہایت سادہ مزاج، متواضع اور نرم گفتار انسان تھے۔جو بھی ان سے ملنے آتا، وہ چہرے پر مسکراہٹ لیے بٹھاتے، پوری توجہ سے بات سنتے اور حکمت و محبت سے مشورہ دیتے — جیسے ایک شفیق بزرگ اپنے بیٹے یا شاگرد کو نصیحت کر رہا ہو۔
ان کی مجلس میں وقار کے ساتھ اپنائیت، اور علم کے ساتھ انسانیت کا احساس ہوتا۔
ان کے دروازے ہمیشہ سب کے لیے کھلے رہتے — بالکل اسی طرح جیسے بیت نصیف کے دروازے صدیوں سے اہلِ علم اور زائرین کے لیے کھلے ہیں۔
بھٹکل مسلم خلیج کونسل کے قیام میں کردار
بھٹکل مسلم خلیج کونسل کا تاسیسی اجلاس رابطہ عالمِ اسلامی کے منیٰ کی مقدس وادی میں واقع کانفرنس ہال میں منعقد ہوا۔
اس وقت بھٹکل مسلم جماعت جدہ کے روحِ رواں ڈاکٹر اویس خواجہ رکن الدین اس کے محرک و داعی تھے۔
انہوں نے اس اجلاس کے انعقاد کے لیے خود ڈاکٹر عبداللہ نصیفؒ کے گھر جاکر اجازت حاصل کی، اور مجھے بھی اس موقع پر ان کے ساتھ رہنے کا شرف حاصل ہوا۔
یہ اجلاس تین دن تک منیٰ کے رابطہ عالم اسلامی کے کانفرنس ہال میں جاری رہا اور تمام شرکا کا قیام بھی وہیں تھا۔
یوں بھٹکل کے اس اہم ادارے کے قیام میں ڈاکٹر نصیفؒ کی دعائیں اور تعاون شاملِ حال رہا۔
بیت نصیف — ایک علامت، ایک ورثہ
بیت نصیف، جدہ کے قدیم علاقے البلد میں واقع وہ شاندار عمارت ہے جو آج بھی حجاز کے تاریخی ورثے کی پہچان ہے۔ اس کے بلند لکڑی کے جھروکے، مرجانی دیواریں اور صحن میں کھڑا نیم کا درخت، سب اپنی جگہ تاریخ کے گواہ ہیں۔
میں نے 1984 سے 2014 تک جدہ میں بیت نصیف کے قریب قیام کیا۔ اکثر دیکھتا کہ مغربی سیاح اور محققین اس عمارت کے حسن، اس کے اندر موجود نمائش اور تاریخ کو دیکھنے آتے۔
بیت نصیف محض ایک عمارت نہیں، بلکہ علم، مہمان نوازی اور تہذیبی ورثے کی علامت ہے — اور یہی اوصاف ڈاکٹر نصیفؒ کی ذات میں بھی جھلکتے تھے۔
وراثتِ خیر
ڈاکٹر نصیفؒ نے اپنی زندگی میں وہ بیج بوئے جو آنے والی نسلوں کے لیے بھلائی کی فصل بن گئے۔
انہوں نے ہمیں سکھایا کہ قیادت کا مطلب کرسی نہیں، خدمت ہے۔
انہوں نے ثابت کیا کہ علم کا کمال عاجزی میں ہے، اور خدمت کا عروج اخلاص میں۔
آج جب وہ ہم میں نہیں ہیں تو ان کی حقیقی یاد یہی ہے کہ ہم ان کے بوئے ہوئے بیجوں کی آبیاری کریں — سنابلُ الخیر کو آگے بڑھائیں، ہر گوشۂ زمین میں علم، ہمدردی اور عدل کے خوشے اگائیں۔
اللہ تعالیٰ ڈاکٹر عبداللہ عمر نصیفؒ کی مغفرت فرمائے،
ان کی قبر کو منوّر کرے،
اور امتِ مسلمہ کو اُن کی راہِ خدمت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔




