ملازمین کے پروویڈنٹ فنڈ (ای پی ایف او) کے نئے قواعد پر اپوزیشن جماعتوں نے بدھ کو مرکزی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ حکومت نے تنخواہ دار طبقے کو اپنی ناکام معاشی پالیسیوں کی سزا دی ہے اور ان کے خون پسینے کی کمائی پر قدغن لگا دی ہے۔
مرکزی حکومت نے حال ہی میں فیصلہ کیا ہے کہ بے روزگار ہونے کے بعد اب کوئی ملازم اپنی پروویڈنٹ فنڈ کی پوری رقم بارہ ماہ بعد اور پنشن کی رقم چھتیس ماہ بعد ہی نکال سکے گا۔ پہلے یہ مدت صرف دو ماہ تھی۔
اسی طرح، نئے ضابطے کے مطابق ملازم کے اکاؤنٹ میں کم از کم پچیس فیصد رقم ہر وقت برقرار رکھنا لازمی ہوگا۔
کانگریس رکن پارلیمان مانکم ٹیگور نے نئے قواعد کو “ظالمانہ اور غیر انسانی” قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ “یہ اصلاحات نہیں بلکہ لوٹ مار ہیں۔ حکومت سرمایہ دار دوستوں کے ہزاروں کروڑ معاف کرتی ہے، لیکن محنت کشوں کو اپنے ہی پیسے سے محروم کر رہی ہے۔”
ٹیگور نے کہا کہ اگر کوئی شخص نوکری سے محروم ہوجائے تو اسے اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے فوری طور پر اپنی جمع پونجی کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن حکومت اسے ایک سال تک روک رہی ہے۔
ترنمول کانگریس کے رکن پارلیمان ساکیت گوکھلے نے بھی اس فیصلے کو “چونکانے والا اور مضحکہ خیز” قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ “یہ تنخواہ دار طبقے کے پیسے کی کھلی چوری ہے۔ پہلے دو ماہ بعد رقم نکالی جا سکتی تھی، اب ایک سال بے روزگار رہنا لازم قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پچیس فیصد رقم مکمل طور پر لاک کردی گئی ہے جو ریٹائرمنٹ سے پہلے نہیں نکالی جا سکتی۔”
انہوں نے سوال اٹھایا کہ “ایک عام ملازم جو اچانک بے روزگار ہوجائے، وہ اپنے بلز اور ای ایم آئیز کیسے ادا کرے گا؟ حکومت اس کے اپنے پیسے کو بھی اس سے چھین رہی ہے۔”
کانگریس ترجمان شمع محمد نے کہا کہ حکومت نے “سادگی” کے نام پر تنخواہ دار طبقے کی محنت کی کمائی پر ڈاکہ ڈالا ہے۔ ان کے مطابق، “پچیس فیصد رقم کو غیر معیادی مدت تک روکنا، اور قبل از وقت نکالنے کی مدت کو دو ماہ سے بڑھا کر ایک سال کردینا، ظالمانہ اقدام ہے۔ حکومت کو فوراً یہ فیصلہ واپس لینا چاہیے۔”
حکومت کا مؤقف
مرکزی وزارت محنت و روزگار کے ایک سینئر افسر کے مطابق یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا ہے کہ ملک کے منظم شعبے کے کارکنوں کو طویل مدتی سماجی تحفظ حاصل ہو سکے۔ انہوں نے بتایا کہ بہت سے کارکن دو ماہ کی بے روزگاری کے بعد اپنی رقم نکال لیتے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ دوبارہ نوکری ملنے پر پنشن کے فوائد سے محروم رہ جاتے ہیں۔
افسر کے مطابق، اکاؤنٹ میں مسلسل توازن برقرار رکھنے سے اراکین کو بہتر شرح سود اور مرکب منافع کا فائدہ حاصل ہوگا، جس سے ریٹائرمنٹ کے وقت بڑی رقم جمع ہوسکے گی۔ملازمین کے لیے مایوس کن ہے جو معمولی آمدنی پر گزر بسر کر رہے ہیں۔
وزارت نے دیگر تبدیلیوں کا اعلان بھی کیا ہے۔ اب فنڈ نکالنے کے زمروں کو تیرہ سے کم کر کے تین کردیا گیا ہے، جن میں ضروریات زندگی، رہائش کی ضرورت اور خصوصی حالات شامل ہیں۔ پہلے خصوصی حالات کے لیے وجہ بتانا لازم تھا، اب رکن کو کسی وضاحت کی ضرورت نہیں ہوگی۔
اس کے علاوہ تعلیم کے لیے دس بار اور شادی کے لیے پانچ بار جزوی رقم نکالنے کی اجازت ہوگی، جب کہ پہلے یہ سہولت تین بار تک محدود تھی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ اقدامات بچت کو فروغ دینے کے لیے کیے گئے ہیں، مگر عملی طور پر یہ ان ملازمین کے لیے مشکل پیدا کریں گے جو نوکری کھونے کے بعد فوری مالی مدد کے محتاج ہوتے ہیں۔
یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری دونوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔




