بنگلورو (فکروخبرنیوز) کرناٹک کے وزیر برائے دیہی ترقیات و پنچایت راج پریانک کھرگے نے ریاستی بی جے پی صدر بی وائی وجییندر کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ بی جے پی ’’حقیقی تاریخ‘‘ کے بجائے ’’واٹس ایپ یونیورسٹی‘‘ کی تاریخ پر یقین رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی اپنی نظریاتی اساس کو بھی صحیح طور پر نہیں سمجھتی، اور اگر وہ واقعی اپنے نظریاتی رہنماؤں کے افکار پر عمل پیرا ہے تو اسے ونایک دامودر ساورکر کے نظریے کو تسلیم کرنا چاہیے۔
پریانک کھرگے نے ایک سخت بیان میں کہا کہ بی جے پی کی اصل مشکل یہ ہے کہ اس کی قیادت حقیقی تاریخ نہیں پڑھتی۔ ساورکر جنہیں بی جے پی اپنا نظریاتی گرو مانتی ہے، نے ہندوستان کو ’مادرِ وطن‘ نہیں بلکہ ’پتر بھومی‘ یعنی ’باپ دھرتی‘ کہا تھا۔
انہوں نے اپنے ایکس (سابق ٹویٹر) اکاؤنٹ پر پوسٹ میں یاد دلایا کہ ساورکر نے 1923 میں اپنی کتاب “ہندوتوا: ہُو اِز اے ہندو؟” میں ہندوتوا کی بنیاد رکھی، جہاں ’’ہندو‘‘ کی تعریف مذہب کے بجائے ایک مخصوص نظریاتی شناخت کے طور پر کی گئی جو عقیدت کے بجائے غلبے اور تسلط کی علامت تھی۔
پریانک کھرگے نے آر ایس ایس پر سوالوں کی بوچھاڑ کرتے ہوئے کہا کہ اگر تنظیم واقعی اتنی ’’پاکیزہ اور اصولی‘‘ ہے، تو پھر کچھ بنیادی سوالات کے جواب دیے جائیں:
’’کیا بی جے پی رہنماؤں کے بچے آر ایس ایس کی شاکھاؤں میں شامل ہوتے ہیں؟ کیا وہ گؤ رکشک ہیں؟ کیا بی جے پی کی نئی نسل ’ترشول دِکشا‘ میں شریک ہوئی ہے؟ کیا کسی رہنما کے گھر میں منو سمرتی نافذ ہے؟ اور سب سے اہم — آر ایس ایس آج تک ایک رجسٹرڈ تنظیم کیوں نہیں بنی؟‘‘
انہوں نے یہ بھی کہا کہ آر ایس ایس نے اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ 26 جنوری 2002 کو اپنے ہیڈکوارٹر پر قومی پرچم لہرایا تھا۔
ریاست کے قومی شاعر کوی کویمپو کا حوالہ دیتے ہوئے پریانک کھرگے نے بی جے پی پر طنز کیا کہ کویکُویَمپو صرف نادکوی نہیں، راشٹرکوی ہیں۔ ان کی ’نادڈا گیتے‘ کو غور سے پڑھو — وہ کہہ گئے ہیں کہ ہندو، مسلمان، عیسائی، پارسی اور جین سب ایک ہی باغ کے رنگ ہیں۔ اگر تم اپنے ہی قومی شاعر کا پیغام نہیں سمجھ سکے تو آر ایس ایس کی تاریخ کیا سمجھو گے؟‘
پریانک کھرگے کے ان بیانات کے بعد سیاسی حلقوں میں بحث چھڑ گئی ہے۔
کانگریس قائدین نے ان کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ وزیر نے آر ایس ایس اور بی جے پی کے ’’دوہرے معیار‘‘ کو آئینی اور سماجی برابری کے تناظر میں بے نقاب کیا ہے جبکہ بی جے پی نے اس بیان کو ’’سیاسی ڈرامہ‘‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔




