ہبلی: کرناٹک کے شہر ہبلی میں ایک سرکاری تقریب کے دوران قرآن کی تلاوت پر شروع ہونے والے تنازعے نے سیاسی رنگ اختیار کر لیا ہے۔ کانگریس رہنماؤں نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایم ایل اے اروند بیلڈ پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ’’ملا موکش ہوما‘‘ نامی علامتی رسم کے ذریعے علاقے میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ تنازعہ 5 اکتوبر کو وشال نگر، پرانا ہبلی میں منعقدہ ایک سرکاری تقریب سے شروع ہوا، جس میں ہبلی دھارواڑ میونسپل کارپوریشن، پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ اور ہبلی الیکٹرسٹی سپلائی کمپنی (HESCOM) کے تحت 10 کروڑ روپے کے ترقیاتی منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا۔ اس موقع پر ضلع انچارج وزیر سنتوش لاڈ اور دیگر افسران موجود تھے۔
بی جے پی ایم ایل اے اروند بیلڈ نے الزام لگایا کہ تقریب کو ’’کانگریس پارٹی کے پروگرام‘‘ کی طرح پیش کیا گیا، جس میں پارٹی کے جھنڈے، بینرز اور لیڈروں کی تصویریں نمایاں تھیں۔ انہوں نے قرآن کی تلاوت پر اعتراض کرتے ہوئے اسے ’’سرکاری پروٹوکول کی خلاف ورزی‘‘ قرار دیا۔
بیلڈ نے چیف سیکریٹری شالنی رجنیش کو خط لکھ کر میونسپل کمشنر ردریش گھلی اور ضلع پنچایت کے سی ای او بھونیش پاٹل کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا، ان پر الزام لگایا کہ وہ ’’سرکاری عہدیداروں کے بجائے پارٹی کارکنوں کی طرح برتاؤ‘‘ کر رہے تھے۔
انہوں نے سوشل میڈیا پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ یہ کانگریس حکومت کی طرف سے سرکاری وسائل کے غلط استعمال کی واضح مثال ہے۔ عوامی پیسوں سے چلنے والے پروگرام کو سیاسی شو میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
بیلڈ نے یہ معاملہ آئندہ اسمبلی اجلاس میں اٹھانے کا اعلان بھی کیا۔
احتجاج کے طور پر بی جے پی کے کارکنوں نے 10 اکتوبر کو دھارواڑ میں بیلڈ کی قیادت میں ’’ملا موکش ہوما‘‘ کی علامتی رسم ادا کی۔ پجاریوں نے شلوک پڑھتے ہوئے سرکاری محکموں کو ’’پاک‘‘ کرنے کی رسم انجام دی۔ بی جے پی رہنماؤں کے مطابق، یہ اقدام ’’قرآن کی تلاوت کے خلاف علامتی احتجاج‘‘ تھا۔
دوسری جانب، کانگریس رہنما اور انجمن اسلام، دھارواڑ کے صدر اسماعیل تمتگر نے بیلڈ کے الزامات کو ’’بے بنیاد اور سیاسی طور پر محرک‘‘ قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ پروگرام وشال نگر میں منعقد کیا گیا تھا، سدھارودھ مٹھ میں نہیں۔
’’ہر علاقے میں تقریب مقامی رسم و رواج کے مطابق منعقد کی جاتی ہے۔ اس علاقے میں شلوک اور قرآنی آیات دونوں کی تلاوت کی روایت ہے،‘‘ تمتگر نے وضاحت کی۔
انہوں نے بیلڈ کی رسم پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام انتہائی قابلِ مذمت ہے اور فرقہ وارانہ تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔
تمتگر نے مزید کہا کہ اگر بیلڈ واقعی مذہبی ہم آہنگی پر یقین رکھتے ہیں تو انہیں ’’ایک مخصوص برادری کو نشانہ بنانے‘‘ کے بجائے تمام سرکاری تقریبات کے لیے مشترکہ پروٹوکول وضع کرنے میں مدد کرنی چاہیے۔
انہوں نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ جب ریاست میں عصمت دری، منشیات کے واقعات یا چیف جسٹس پر کاغذ پھینکنے جیسے واقعات پیش آئے، تو بیلڈ نے کبھی ’ہوم‘ کرنے کے بارے میں نہیں سوچا۔




