لکھنؤ(فکروخبرنیوز) دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں موقر استاد ڈاکٹر نذیر احمد ندوی کے انتقال پر جامع مسجد میں تعزیتی نشست منعقد ہوئی جس میں ادارے کی سرکردہ شخصیات، اساتذہ اور طلبہ نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ مقررین نے مرحوم کی علمی و تدریسی خدمات، اخلاق و تواضع اور طلبہ نوازی کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے ان کی وفات کو ایک بڑا علمی خلا قرار دیا۔
اجلاس کی صدارت اور رہنمائی ناظم ندوۃ العلماء مولانا سید بلال حسنی ندوی نے کی جنہوں نے کہا کہ ڈاکٹر نذیر احمد ندوی علمی دنیا کی ایک معتبر آواز تھے جنہوں نے نصابی و تحقیقی میدان میں نمایاں نقوش چھوڑے۔ ان کا کہنا تھا کہ مرحوم کی زندگی نبوی مشن کی ترجمانی، امانت و دیانت اور مقصدیت سے عبارت رہی، اور ان کی کمی دیر تک محسوس کی جاتی رہے گی۔
عمید کلیۃ اللغۃ مولانا علاء الدین ندوی نے اپنے تاثرات میں کہا کہ مرحوم نے زبان و ادب کی تدریس میں نئی نسل کی رہنمائی کی، درسگاہ کو تحقیق و فہمِ زبان کا عملی مرکز بنایا اور شاگردوں میں مطالعہ، ترتیب اور سلیقہ مندی کو فروغ دیا۔ انہوں نے کہا کہ استاد کی حیثیت سے ان کی شفقت اور عملی تربیت طلبہ کے لیے سرمایۂ عمر ہے۔
عمید کلیۃ الشریعہ و اصول الدین مولانا خالد ندوی غازیپوری نے کہا کہ ڈاکٹر نذیر احمد ندوی علمی توازن، اعتدال اور اخلاقی وقار کے حسین امتزاج تھے، وہ علم کے ساتھ کردار سازی پر بھی زور دیتے رہے اور ہر مرحلے پر اخلاص و للّٰہیت کو معیار رکھا۔
ناظر عام ندوۃ العلماء مولانا عمار حسنی ندوی نے اپنے خطاب میں کہا کہ مرحوم استاد سے زیادہ مربی تھے، انہوں نے خاموشی، سنجیدگی اور خدمت کے ذریعے قلوب جیتے۔ ان کا کہنا تھا کہ ادارہ اور وابستگانِ ندوہ مرحوم کے لیے سراپا دعا ہیں اور ان کے شروع کیے گئے علمی کاموں کو آگے بڑھانا اصل وفا داری ہے۔
تعزیتی نشست میں دیگر اساتذہ اور فضلا نے بھی مرحوم کے اوصافِ حمیدہ کا ذکر کیا، ان کی تدریسی محنت، طلبہ کے ساتھ حسنِ سلوک اور ادارہ جاتی نظم سے والہانہ وابستگی کو یاد کیا۔ مقررین نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ڈاکٹر نذیر احمد ندوی کے علمی ورثے کی حفاظت اور تکمیل کے لیے مشترکہ جدوجہد جاری رہے گی۔
آخر میں مرحوم کے لیے ایصالِ ثواب، بلندیٔ درجات، اور پسماندگان کے لیے صبرِ جمیل کی دعائیں کی گئیں-




