تحریر: مسعود ابدالی
ہیوسٹن (امریکہ): امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 29 ستمبر کو غزہ کے لیے ایک 21 نکاتی امن منصوبہ پیش کیا ہے، جسے جاری جنگ کے خاتمے اور علاقے کو ’’انتہاپسندی و دہشت گردی سے پاک‘‘ خطہ بنانے کے حل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ اسرائیلی عبرانی میڈیا نے اس منصوبے کے اہم نکات شائع کیے ہیں، جن کے مطابق:
غزہ پٹی کو غیر فوجی علاقہ قرار دیا جائے گا تاکہ اسرائیل کو کسی قسم کے سیکیورٹی خدشات نہ ہوں۔
اگر مزاحمتی تنظیمیں منصوبے کو تسلیم کر لیں تو اسرائیلی فوجی کارروائیاں روک دی جائیں گی اور اسرائیلی افواج بتدریج پیچھے ہٹیں گی۔
تمام اسرائیلی یرغمالیوں اور زخمی افراد کو 72 گھنٹوں میں رہا کرنا لازمی ہوگا۔
اس کے بدلے اسرائیل 250 عمر قید فلسطینی قیدیوں اور 1,700 غزہ کے زیر حراست افراد (بشمول خواتین و بچوں) کو رہا کرے گا۔
ہر اسرائیلی یرغمالی کی لاش کے بدلے 15 فلسطینیوں کی میتیں واپس کی جائیں گی۔
ہتھیار ڈالنے اور پرامن بقائے باہمی پر آمادگی ظاہر کرنے والے مزاحمتی کارکنوں کو عام معافی دی جائے گی۔
جو لوگ غزہ چھوڑنا چاہیں، انہیں محفوظ راستہ فراہم کیا جائے گا۔
فوری انسانی امداد، بنیادی ڈھانچے کی بحالی، اسپتالوں و بیکریوں کی تعمیر اور ملبے کی صفائی کا بندوبست کیا جائے گا۔
امداد کی ترسیل اور تقسیم اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی ادارے نگرانی میں کریں گے جبکہ رفح کراسنگ دونوں سمت کھولی جائے گی۔
غزہ کا انتظام ایک تکنوکریٹک کمیٹی کے حوالے کیا جائے گا جس کی نگرانی ایک ’’پیِس کونسل‘‘ کرے گی، جس کا چیئرمین خود صدر ٹرمپ ہوں گے۔
سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کو بھی اہم کردار دینے کی بات کی گئی ہے۔
ایک خصوصی معاشی زون قائم کیا جائے گا تاکہ سرمایہ کاری اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔
غزہ کے عوام کو اختیار ہوگا کہ وہ وہاں رہیں یا ہجرت کر جائیں۔
اگرچہ منصوبے کو امن کے نام پر پیش کیا جا رہا ہے، لیکن اس کی روح اور ساخت صاف بتاتی ہے کہ اس کا مقصد بنیادی طور پر اسرائیلی مفادات کو تحفظ دینا ہے۔
اصل فریق غیر حاضر
منصوبے کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ براہِ راست فریقین یعنی مزاحمتی تنظیموں کو بات چیت میں شامل ہی نہیں کیا گیا۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے عدالت کسی مقدمے کا فیصلہ مدعی اور مدعا علیہ کو سنے بغیر صادر کر دے۔ فلسطینی عوامی نمائندوں اور منتخب قیادت کو اعتماد میں لیے بغیر کوئی بھی معاہدہ محض انتظامی بندوبست ہوگا، پائیدار امن نہیں۔
امریکہ کا کردار اور شکوک
اس منصوبے کا ثالث امریکہ ہے جو درحقیقت اسرائیل کا سب سے بڑا حمایتی ہے۔ ایسے میں مزاحمتی تنظیمیں اس کی غیر جانب داری پر کیسے اعتماد کر سکتی ہیں؟ قطر اور مصر نے کسی حد تک ان تنظیموں کی نمائندگی ضرور کی، لیکن چونکہ دونوں نے رسمی طور پر انہیں ’’دہشت گرد‘‘ قرار دیا ہوا ہے، اس لیے ان کی نمائندگی زیادہ تر علامتی ہی سمجھی جا رہی ہے۔
مقصد: مزاحمت کا خاتمہ یا امن؟
منصوبے کا اصل ہدف مزاحمت کو غیر مسلح کر کے انہیں غزہ کے معاملات سے الگ کر دینا اور اسرائیلی سلامتی کے نام پر ایک مستقل بفر زون کو قانونی جواز فراہم کرنا معلوم ہوتا ہے۔ ٹرمپ کی زیر قیادت عبوری بندوبست اور ٹونی بلیئر جیسے متنازعہ کردار کی شمولیت مزید سوالات کو جنم دیتی ہے، خاص طور پر بلیئر کے عراق میں مشکوک کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے۔
یک طرفہ بیانیہ
اعلان کے دوران صدر ٹرمپ نے مکمل طور پر خونریزی کا ذمہ دار مزاحمتی گروپوں کو ٹھہرایا اور اسرائیل کی جارحیت کو جواز بلکہ تحسین کے قابل قرار دیا۔ انہوں نے 2005ء میں اسرائیل کے انخلا کو ’’امن کے لیے خوبصورت قربانی‘‘ کہا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ انخلا فلسطینی مزاحمت کے دباؤ اور اسرائیلی پارلیمنٹ کے ’’ڈس انگیجمنٹ لا‘‘ کے تحت کیا گیا تھا۔ ٹرمپ نے اسرائیلی قیدیوں کے دکھ کا ذکر کیا، مگر ہزاروں فلسطینی شہداء کا ایک لفظ بھی نہ کہا—یہی اس منصوبے کی یک طرفہ نوعیت کو عیاں کرتا ہے۔
عرب و اسلامی دنیا کا ردعمل
دلچسپ بات یہ ہے کہ سعودی عرب، اردن، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، پاکستان، ترکی، قطر اور مصر کے وزرائے خارجہ نے بغیر کسی غور و فکر یا مشاورت کے فوری طور پر ٹرمپ کے ’’خلوصِ نیت‘‘ کی تعریف کی اور تعاون کی پیشکش بھی کر دی۔ اس موقع پر جو کیفیت سامنے آئی، اسے اردو محاورے میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے: ’’بیگانے کی شادی میں عبداللہ دیوانہ‘‘۔
یہ انگریزی مضمون کا اردو ترجمہ ہے۔
بشکریہ : انڈیا ٹومورو




