متنازعہ وقف قانون پر سپریم کورٹ کا عبوری فیصلہ: کچھ امیدیں اور کچھ مایوسی

نور اللہ جاوید

غیر مسلم ممبروں کی تقرری کے تعداد محدود۔ متنازعہ ایکٹ پر مکمل حکم امتناع سے گریز
ابھی مکمل سماعت ہونی ہے، سپریم کورٹ کے آئینی بنچ کے سامنے پوری قوت سے مقدمہ لڑا جائے گا۔ مسلم تنظیموں کا موقف
طویل انتظار کے بعد آج سپریم کورٹ نے متنازعہ وقف ترمیمی بل کے خلاف دائر کردہ عرضیوں پر اپنا فیصلہ سنا دیا۔ عدالتِ عظمیٰ نے مقننہ کے اختیارِ قانون سازی کا احترام کرتے ہوئے اگرچہ پورے بل کو منسوخ نہیں کیا ہے تاہم، اس کے بعض اہم حصوں پر عبوری روک لگا کر عام شہریوں کے عدلیہ پر اعتماد کو برقرار رکھا ہے۔
ملی تنظیموں، جماعتوں اور سرکردہ شخصیات، جنہوں نے اس بل کی مخالفت سڑکوں سے عدالت تک کی تھی، سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے اور جمہوریت و عدلیہ کی بالا دستی پر اپنے یقین کا اظہار کرتے ہوئے عزم دہرایا ہے کہ چونکہ یہ محض عبوری روک ہے اور ابھی مکمل سماعت باقی ہے، اس لیے سپریم کورٹ کے آئینی بنچ کے سامنے پوری قوت اور ٹھوس استدلال کے ساتھ مقدمہ لڑا جائے گا۔ مسلم قیادت کا یہ موقف ان عناصر کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے جو مسلمانوں پر علیحدگی پسندی کے الزامات عائد کرتے ہیں، حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ آزاد بھارت کی پوری تاریخ میں مسلمانوں نے کبھی بھی عدالتِ عظمیٰ کی بالا دستی کو چیلنج نہیں کیا ہے، اگرچہ اس نے متعدد مواقع پر ان کے ساتھ انصاف نہیں کیا ہے۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ عبوری فیصلہ کس کے حق میں ہے؟ اور کیا چند دفعات پر روک لگائے جانے کے بعد وہ خدشات ختم ہو گئے ہیں جو وقف املاک کے تحفظ کے حوالے سے کیے جا رہے تھے؟
سپریم کورٹ نے ترمیمی ایکٹ پر مکمل روک لگانے سے انکار کرتے ہوئے واضح کیا کہ عدلیہ کو مقننہ کے کام میں غیر ضروری مداخلت سے گریز کرنا چاہیے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب مقننہ محض اکثریت کی نمائندہ بن جائے اور اقلیتوں کو عملاً حاشیے پر پہنچا دے تو آئینی طور پر فراہم کردہ بنیادی حقوق کی حفاظت کون کرے گا؟ کیا شہریوں کے بنیادی اور مذہبی حقوق کی حفاظت عدالتِ عظمیٰ کی ذمہ داری نہیں ہے؟ چیف جسٹس بی آر گوائی نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ عدالت صرف نایاب ترین مواقع پر ہی قانون سازی پر روک لگا سکتی ہے، لیکن سوال باقی رہ جاتا ہے کہ ’’نایاب ترین موقع‘‘ کسے کہا جائے گا؟ کیا مسلمانوں کو او بی سی ریزرویشن دینے کے لیے اسمبلیوں سے منظور شدہ قوانین اس دائرے میں نہیں آتے؟
عدالت نے یہ بھی وضاحت کی کہ اگرچہ پورے ترمیمی ایکٹ کو چیلنج کیا گیا تھا لیکن یہ چیلنج بنیادی طور پر چند مخصوص دفعات کے خلاف تھا۔ عدالت نے کہا کہ ’’پورے قانون پر روک لگانے کے لیے کوئی مقدمہ نہیں بنایا گیا تھا۔‘‘
چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوائی اور جسٹس اے جی مسیح پر مشتمل دو رکنی بنچ نے 128 صفحات پر مشتمل اس تفصیلی فیصلے میں اہم نکات پر روشنی ڈالی ہے۔ ان میں سے ایک نمایاں نکتہ یہ ہے:
وقف کے لیے پانچ سالہ مسلم شناخت کی شرط:
وقف ترمیمی ایکٹ میں شرط رکھی گئی تھی کہ وقف کرنے والا کم از کم پانچ سال سے مسلمان ہو۔ عدالت نے اس شرط کو من مانی قرار نہیں دیا تاہم، کہا کہ چونکہ ریاستی حکومتوں نے ابھی تک اس کے تعین کے لیے کوئی طریقہ کار وضع نہیں کیا ہے اس لیے اس شرط کو فی الحال نافذ نہیں کیا جا سکتا۔ کورٹ نے یہ بھی واضح کیا کہ فی الحال کوئی میکانزم موجود نہیں کہ یہ جانچا جا سکے کہ کوئی شخص پانچ سال سے اسلام پر عمل پیرا ہے؟ لہٰذا اس شق کو قواعد وضع ہونے تک معطل رکھا جائے گا۔ عدالت نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ کوئی غیر مسلم شخص محض قرض دہندگان یا قانون سے بچنے کے لیے اسلام قبول کر کے وقف کا سہارا لے سکتا ہے، اس لیے اس شق کے نفاذ سے قبل باقاعدہ طریقہ کار بنانا ناگزیر ہے۔
چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گاوائی اور جسٹس اے جی مسیح پر مشتمل دو رکنی بنچ نے 128 صفحات پر مشتمل اپنے تفصیلی فیصلے میں وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کی مختلف دفعات پر اہم مشاہدات پیش کیے۔ ان میں سے چند نمایاں نکات درج ذیل ہیں:
(1) پانچ سالہ مسلم شناخت کی شرط:
وقف ترمیمی ایکٹ میں شرط رکھی گئی تھی کہ واقف کم از کم پانچ سال سے پریکٹسنگ مسلم ہو۔ عدالت نے اس شرط کو من مانی قرار نہیں دیا، لیکن واضح کیا کہ چونکہ ریاستی حکومتوں نے ابھی تک اس شرط کے تعین کے لیے کوئی باضابطہ طریقہ کار وضع نہیں کیا ہے، اس لیے اس پر فی الحال عمل درآمد نہیں کیا جا سکتا۔ عدالت نے کہا کہ کوئی شخص محض قرض دہندگان یا قانون سے بچنے کے لیے اسلام قبول کر کے وقف کا سہارا لے سکتا ہے، اس لیے پہلے قواعد بنانا ضروری ہے۔ جب تک قواعد مرتب نہیں ہو جاتے، اس شق پر عبوری روک برقرار رہے گی۔
(2) ضلع کلکٹر کو تنازعات کے اختیارات:
نئے ایکٹ میں وقف املاک سے متعلق تنازعات کے فیصلے کا اختیار ضلع کلکٹر کو دیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ یہ انتظام اختیارات کی علیحدگی کے اصول کے خلاف ہے اور اس سے اختیارات کے تصادم کا خدشہ پیدا ہوگا۔ عدالت نے کہا کہ جب تک وقف ٹریبونل یا عدالت جائیداد کے ٹائٹل پر فیصلہ نہیں کرتی، متنازعہ زمین متاثر نہیں ہوگی اور کسی تیسرے فریق کو اس پر حق نہیں دیا جائے گا۔ عدالت نے اس شق کو عبوری طور پر روک دیا اور کہا کہ جائیداد کے عنوان کا تعین ریونیو افسر کے بجائے عدالتی یا نیم عدالتی ادارہ کرے گا۔
(3) "وقف بائی یوزر” کا خاتمہ:
نئے ایکٹ میں "وقف بائی یوزر” یعنی برسہا برس سے عبادت یا تعلیم کے لیے استعمال ہونے والی زمینوں کو وقف ماننے کے تصور کو ختم کر دیا گیا تھا۔ مسلمانوں نے سب سے زیادہ اعتراض اسی شق پر کیا تھا، کیونکہ ملک میں ایسی درجنوں مساجد اور درسگاہیں ہیں جو اس تعریف کے تحت وقف شمار ہوتی تھیں۔ عدالت نے کہا کہ اس شق کو ختم کرنے کی وجوہات بظاہر معقول ہیں کیونکہ اس کے ذریعے بعض سرکاری زمینوں پر ناجائز قبضے کیے گئے تھے۔ تاہم عدالت نے واضح کیا کہ موجودہ وقف املاک، بشمول "وقف بائی یوزر” کے تحت قائم املاک کو اس وقت تک نہیں چھیڑا جا سکتا جب تک وقف ٹریبونل یا ہائی کورٹ اس بارے میں کوئی حکم نہ دے۔
(4) آثارِ قدیمہ اور قبائلی زمینوں کی حیثیت:
نئے ایکٹ کے تحت آثار قدیمہ کے دائرے میں آنے والی عمارتوں کی وقف حیثیت ختم کر دی گئی تھی۔ عدالت نے اس شق کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے نہ تو مذہبی اور نہ ہی رواجی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے، کیونکہ 1958 کے آثار قدیمہ ایکٹ کی دفعہ 5(6) مذہبی رسومات جاری رکھنے کی اجازت دیتی ہے۔ اسی طرح سیکشن 3E کے تحت قبائلی زمینوں کو وقف قرار دینے پر پابندی کو بھی عدالت نے درست مانا اور کہا کہ یہ شق شیڈولڈ ٹرائبس کے مفادات کے تحفظ کے لیے ہے۔
(5) غیر مسلم اراکین کی شمولیت:
وقف کونسل اور وقف بورڈوں میں غیر مسلم اراکین کی شمولیت پر اعتراضات اٹھائے گئے تھے۔ عدالت نے مرکزی حکومت کے اس بیان کو نوٹ کیا کہ مرکزی وقف کونسل میں چار سے زیادہ اور ریاستی بورڈوں میں تین سے زیادہ غیر مسلم اراکین نہیں ہوں گے۔ عدالت نے کہا کہ قانون کے سادہ مطالعے سے اگرچہ زیادہ تعداد ممکن دکھائی دیتی ہے لیکن اس وضاحت کے بعد اس پر مزید سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔
(6) غیر مسلم چیف ایگزیکٹیو آفیسر کی تقرری:
عدالت نے وقف بورڈ میں غیر مسلم چیف ایگزیکٹیو آفیسر کی تقرری پر روک لگانے سے انکار کر دیا۔ بنچ نے کہا کہ چونکہ غیر مسلم اراکین کی تعداد محدود کر دی گئی ہے، اس لیے بورڈز مسلم اکثریتی رہیں گے۔ عدالت نے تجویز دی کہ جہاں ممکن ہو اس عہدے پر مسلمان افسر کی تقرری کی جائے۔ اسی طرح عدالت نے وقف املاک کی رجسٹریشن کی لازمی شرط پر بھی روک لگانے سے انکار کیا کیونکہ یہ پرانے قانون میں بھی شامل تھی۔
(7) غیر مسلموں کی طرف سے وقف کی ممانعت:
نئے قانون میں پرانے وقف ایکٹ کے سیکشن 104 کو منسوخ کر کے غیر مسلموں کے لیے وقف کرنے کی اجازت ختم کر دی گئی۔ عدالت نے کہا کہ اس پر روک لگانے کی ضرورت نہیں کیونکہ وقف خالصتاً اسلامی مذہب سے مخصوص ہے، تاہم غیر مسلم اپنی جائیداد کو ٹرسٹ کے ذریعے وقف کے مقاصد کے لیے دے سکتے ہیں۔
عدالت نے واضح کیا کہ یہ تمام مشاہدات ابتدائی نوعیت کے ہیں اور فریقین کو حتمی سماعت میں اپنی گزارشات پیش کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔ یہ فیصلہ عدالت نے فریقین کو تین دن تک سننے کے بعد 22 مئی کو محفوظ کیا تھا۔
اہم شخصیات کا ردعمل
جمعیت علمائے ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ایک بیان جاری کیا۔ اپنے پیغام میں انہوں نے کہا:
’’جمعیت علمائے ہند وقف قانون کی تین اہم متنازعہ دفعات پر ملی عبوری راحت کے فیصلے کا خیر مقدم کرتی ہے۔ اس عبوری راحت نے ہماری امید کو یقین میں بدل دیا ہے کہ انصاف اب بھی زندہ ہے۔‘‘
مولانا مدنی نے یہ عزم بھی ظاہر کیا کہ
’’جمعیت علمائے ہند اس سیاہ قانون کے خاتمے تک اپنی قانونی اور جمہوری جدوجہد جاری رکھے گی۔‘‘
ان کے مطابق یہ نیا وقف قانون ملک کے آئین پر براہ راست حملہ ہے جو شہریوں اور اقلیتوں کو نہ صرف مساوی حقوق فراہم کرتا ہے بلکہ انہیں مکمل مذہبی آزادی بھی دیتا ہے۔ انہوں نے اسے مسلمانوں کی مذہبی آزادی سلب کرنے کی آئین مخالف سازش قرار دیا اور کہا کہ یہی وجہ ہے کہ جمعیت علمائے ہند نے وقف قانون 2025 کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ اپنی پوسٹ کے آخر میں انہوں نے اعتماد ظاہر کیا:
’’ہمیں یقین ہے کہ سپریم کورٹ اس سیاہ قانون کو ختم کر کے ہمیں مکمل آئینی انصاف فراہم کرے گا‘‘
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان قاسم رسول الیاس نے اپنے مختصر تبصرے میں کہا کہ وقف ترمیمی ایکٹ پر سپریم کورٹ کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ انہوں نے کہا کہ بعض دفعات پر روک لگا دی گئی ہے اور دیگر کو برقرار رکھا گیا ہے، اس لیے ہم اس کے قانونی مضمرات کا بغور جائزہ لیں گے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ یہ محض ایک عبوری حکم ہے اور اب یہ معاملہ سپریم کورٹ کے آئینی بنچ کے سامنے زیرِ سماعت ہوگا جہاں بورڈ اپنے دلائل پوری قوت کے ساتھ پیش کرے گا۔

برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کا فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا اعلان  

مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِي