اک گزارش- ہائی ٹیک فش مارکیٹ

جاوید احمد ائیکری ندوی

یوں تو پاکی ایمان کا نصف حصہ ہے اور کوئی مثبت سوچ اور پاکی کا خیال رکھنے والا سلیم الفطرت گندگی سے نہ صرف کراہت محسوس کرتا ہے بلکہ اسے آس پاس کی گندگی سے نفرت اور حد درجہ اس سے دور رہنے کی کوشش کرتا ہے، بات آج کل سوشل میڈیا پر چل رہی پرانی اور نئی مچھلی مارکیٹ کی ہی نہیں، بلکہ میرے شہر بھٹکل کی ہر پیش آمد مسئلہ کے حل کی ہے،
غالبا ٢٠١٨ میں حکومت نے اک نئے باب کا آغاز کیا اور اک حد تک پاک صاف مارکیٹ کی تکمیل کی، لیکن افسوس یہ مارکیٹ نیتاووں کے ووٹ بنک، مچھلی بیوپاری کی ہٹ دھرمی اور اپنوں کا گندگی کے ماحول سے صاف ستھری مارکیٹ میں منتقلی کو لے کر سستی نے سالوں سال تالا لگا دیا۔
مہینے پہلے میونسپلٹی کے ستمبر کو مارکیٹ کے افتتاح کے اعلان نے اک امید جگادی، خواب غفلت سے سوشل میڈیا میں اپنا وقت کھپانے والے بیدار ہوگئے، شہر کی خراب سڑکیں، آوارہ کتوں، غوثیہ اسٹیٹ ڈرینیج مسئلہ سے ہٹ کر ایک اور موضوع پر بحث چھڑگئی، اور عادتا یا فطرتا وہی جوش دکھائی دیا، اسی امید کی کرن کو افتتاح کے دو دن پہلے وزیر صاحب کے دورہ نے بجھودیا، سوچنے کی بات یہ ہے اگر آپ کیچڑ زدہ مارکیٹ پر نئی تعمیر کا عزم دکھاگئے تو کم از کم اسی مدت میں نئی مارکیٹ میں منتقل ہونے کی درخواست بھی کرتے، لیکن دور کی سوچ نے ووٹ بنک کو صحیح سے کھیل گئے کہ مخالف پارٹی چاہ کر بھی اعتراض یا کوئی اور ناٹک نہ کرسکی۔ اک تیر سے دو شکار پرانی بات، صاحب تو تین کھیل گئے ، اپوزیشن پارٹی، مچھلی فروش اور آئندہ آنے والے الیکشن تک مارکیٹ کو تعمیر کرنے کے نام پر ایڈوانس ووٹ بکنگ۔ ان سب میں ظاہری طور پر ہار انکی جو نئی سوچ، صاف ماحول میں خریداری یا دبے لفظوں میں جنہوں نے قوم کے ووٹوں کا ذخیرہ بنا کوئی مانگ کے کسی کے ہاتھوں دے دیا۔
پہلے دن نئی مارکیٹ کے افتتاح میں سورج زوال تک کوئی مچھلی فروش نہیں، بالآخر تقریباً ایک بجے کسی نے ہمت دکھائی اور تین چار کلو جھینگا بیچ کر مچھلی مارکیٹ کا افتتاح کیا، الحمدللہ تیسرے دن کچھ اور نے ہمت دکھائی اور ہمارے اپنوں نے انکی ہمت افزائی بھی کی۔ تادم تحریر کافی نئے اور پرانے مچھلی فروش نے اسٹال بھی اپنے نام کرالیا
اب ہماری ذمہ داری ہے، اک پاک اور صاف ستھری مچھلی مارکیٹ کو پرانی اور گندی مارکیٹ پر منتخب کریں، ہم لوگوں کو عادت ہوگئی ہے گندگی میں رہنے کی، چاہیے صاف پانی کا مسئلہ ہو، ڈرینیج، کچے راستے یا گندے بازار ہوں، اگر ہماری قوم نے وہی پرانی مارکیٹ سے خریداری جاری رکھی تو اس بار بھی نئی مچھلی مارکیٹ کا خواب ادھورا رہ جائے گا، بدلاو لانا ہو تو شروعات اپنے سے شروع کریں، اک مہینہ پرانی مچھلی سے خریداری نہ کرنے پر آپکا نہ وزن گھٹےگا، یا صحت پر اثر پڑے گا اور اگر نئی مارکیٹ میں مچھلی کم پڑے تو ویسے بھی ہمارے اکثر گھروں میں دس بارہ روز کی مچھلیاں فریج میں پڑی رہتی، اک تو گورنمنٹ بنیادی سہولیات فراہم کرنے سے عاری، لیکن خدا خدا کرکے جو نئی سہولیات سے آراستہ اک عمارت بنی ہے اسکا استعمال اور فائدہ اٹھانے کے بجائے اس عمارت کو آوارہ کتوں اور بے گھر مسافروں کے لئے چھوڑ رکھنا ہماری کاہلی کی دلیل ہے، اگر پھر بھی ہمیں عقل نہ آئی تو ہم سب وہیں بوسیدہ مارکیٹ اور راستہ کنارے مچھلیاں خریدنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ اس نئی مارکیٹ سے ہوسکتا نئی بیوپاری پیدا ہوجائیں گے تو انکی مدد کرنا ہماری اخلاقی فرض بھی ہے۔
آپ اسے گزارش سمجھو یا منت سماجت اک عزم کرلو کہ خریداری صرف نئی مارکیٹ سے کریں گے، خصوصا شادی وغیرہ کے آرڈر، یاد رکھیں عوام سے بڑی کوئی طاقت نہیں ہوتی اور اگر میرا مضمون پرانے مچھلی فروش پڑھ رہے ہو تو پاک صاف ماحول میں منتقل سے آپ کا ہی فائدہ اور قوم میں آپ عزت کی نگاہ سے دیکھے جاؤگے، شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات۔

رسول اللہ ﷺ کا اسوہ حسنہ، امت کے اتحاد اور نجات کی بہترین راہ

سرکاری اسپتال کے ائی سی یو میں چوہوں کے کاٹنے سے دونوزائیدہ بچوں کی موت ، ویڈیو وائرل