ملک کی تاریخ میں پہلی بار کسانوں پر ٹیکس، مودی حکومت نے زرعی اشیا پر جی ایس ٹی لگایا: ملکارجن کھڑگے

نئی دہلی: کانگریس کے قومی صدر ملکارجن کھڑگے نے جمعرات کو جی ایس ٹی اصلاحات کے اعلان پر مرکز کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کی تاریخ میں پہلی بار کسانوں پر ٹیکس عائد کیا گیا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ بی جے پی حکومت نے زرعی شعبے کی کم از کم 36 اشیا پر جی ایس ٹی لگایا تھا، جس کے بعد کانگریس نے اس ٹیکس کو ’گبر سنگھ ٹیکس‘ کا نام دیا۔

کھڑگے نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا کہ کانگریس پارٹی نے اپنے 2019 اور 2024 کے منشور میں جی ایس ٹی 2.0 کا مطالبہ کیا تھا، تاکہ ٹیکس کا نظام سادہ اور منطقی بنایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ جی ایس ٹی کے تحت پیچیدہ کمپلائنس کی وجہ سے ایم ایس ایم ای اور چھوٹے کاروبار بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

کھڑگے نے یاد دلایا کہ 28 فروری 2005 کو یو پی اے حکومت نے لوک سبھا میں پہلی بار جی ایس ٹی کی باضابطہ اعلان کیا تھا۔ بعد ازاں 2011 میں اس وقت کے وزیر خزانہ پرنب مکھرجی نے جب جی ایس ٹی بل پیش کیا تو بی جے پی نے اس کی مخالفت کی تھی۔ اس وقت نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے اور وہ بھی اس بل کے مخالفین میں شامل تھے۔ لیکن آج یہی بی جے پی حکومت ریکارڈ جی ایس ٹی کلیکشن پر جشن مناتی ہے، جیسے عوام سے زیادہ ٹیکس وصولنا کوئی بڑی کامیابی ہو۔

انہوں نے کہا کہ ’’یہ حکومت نہ صرف کسانوں بلکہ عام آدمی پر بھی بوجھ ڈال رہی ہے۔ دودھ، دہی، آٹا، اناج، بچوں کی پینسل و کتابیں، آکسیجن، انشورنس اور اسپتال کے اخراجات تک پر جی ایس ٹی لگا دیا گیا ہے۔‘‘ کھڑگے کے مطابق، کل جی ایس ٹی کلیکشن کا تقریباً 64 فیصد بوجھ غریبوں اور متوسط طبقے کی جیب سے آتا ہے، جب کہ ارب پتی طبقے سے صرف 3 فیصد جی ایس ٹی وصول کیا جاتا ہے۔

کارپوریٹ ٹیکس کے معاملے میں کھڑگے نے کہا کہ اس کی شرح 30 فیصد سے کم کر کے 22 فیصد کر دی گئی ہے۔ دوسری جانب پچھلے پانچ برسوں میں انکم ٹیکس وصولی میں 240 فیصد اور جی ایس ٹی وصولی میں 177 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس سے صاف ہے کہ حکومت نے غریب اور متوسط طبقے پر دباؤ بڑھایا جبکہ بڑی کمپنیوں کو چھوٹ دی گئی۔

کسانوں پر ٹیکس کے مسئلے کو اجاگر کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’یہ قدم کسان برادری کے خلاف ہے، جو پہلے ہی معاشی بحران سے گزر رہی ہے۔ ملک کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کسانوں پر بھی ٹیکس کا بوجھ ڈالا گیا ہے۔”

کھڑگے نے کہا کہ اگرچہ حکومت نے آٹھ سال کی تاخیر کے بعد اب شرحوں میں توازن (ریٹ ریشنلائزیشن) کی بات کی ہے، لیکن اس کے اثرات ریاستوں کی آمدنی پر منفی ہوں گے۔ اس لیے ضروری ہے کہ 2024-25 کو بنیاد بنا کر ریاستوں کو پانچ برس تک معاوضہ دیا جائے۔

بھٹکل َ: مسجد محمد عمر الجابری میں  سیرت النبی ﷺ  عنوان پر پروگرام ، طلبہ نے مختلف زبانوں میں سیرت پر ڈالی روشنی ، جناب عبدالغفور خلیفہ کی 37 سالہ خدمات کا اعتراف

کرناٹک کی 320 کلومیٹر لمبی ساحلی پٹی اب ہوگی پلاسٹک سے پاک، ₹840 کروڑ کا شاندار منصوبہ آغاز کے قریب