اُردو زبان کی بقا،فراقؔ گورکھپوری کے خوابوں کی تکمیل ہے
ایم.ڈبلیو.انصاری (ریٹائرڈ.آئی. پی. ایس)
رگھوپت سہائے فراقؔ گورکھپوری، جنہیں ہم فراقؔ کے نام سے جانتے ہیں، آزادیِ ہند کے ایک سپاہی بھی تھے اور اُردو کے ایسے امام بھی جنہوں نے غزل کو ایک نئی زندگی بخشی۔ 28 اگست 1896 کو بانس گاؤں میں پیدا ہونے والے یہ فرزندِ وطن جب 3 مارچ 1982 کو دنیا سے رخصت ہوئے تو ایک پوری صدی کا ادبی سرمایہ پیچھے چھوڑ گئے۔
فراقؔ نے صرف شاعری نہیں کی بلکہ بھارت کی روح کو لفظوں میں ڈھالا۔ ان کے مجموعے ’’روح کائنات، غزلستان، شبستان، گل نغمہ‘‘ وغیرہ آج بھی آسمان اُردو پر جگمگا رہے ہیں۔ انہوں نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ اُردو صرف زبان نہیں بلکہ بھارتی تہذیب کی روح ہے۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں ’’گیان پیٹھ ایوارڈ‘‘ اور ’’پدم بھوشن‘‘ سے نوازا گیا۔
لیکن ہم سب کے لئے افسوس کا مقام ہے کہ آج وہی اُردو جس نے ہندو- مسلم دونوں کے دل جوڑے، اسی کو سیاست کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔ یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ جس زبان کو چندر بھان برہمن نے لکھا، جسے آنند نارائن ملا، جگن ناتھ آزاد اور برج نارائن چکبست نے سینچا، آج اسی اُردو کو ایک مخصوص طبقہ کی زبان کہہ کر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اردو شعبے نہیں ہیں، اساتذہ کی تقرریاں نہیں کی جارہیں، نصاب میں اُردو کو حاشیے پر ڈال دیا گیا ہے، اکیڈمیاں بند ہونے کی کگار پر ہیں۔ کیا یہ زبان کا قتل نہیں ہے؟ کیا یہ بھارت کی تہذیب کے ساتھ غداری نہیں؟
یاد رکھئے! یہ وقت خاموش رہنے کا نہیں ہے۔ اگر ہم نے اپنی آنے والی نسل کو یہ ورثہ نہ دیا تو وہ ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گے۔ ہمیں اپنی اولادوں کو اُردو سکھانا ہوگی، گھروں میں عام بول چال اُردو میں ہو اس کا مزاج بنانا ہوگا، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اُردو کے حق میں آواز بلند کرنی ہوگی۔ اُردو کے نام پر سیاست کرنے والوں کو جواب دینا ہوگا کہ یہ زبان کسی طبقہ ٔ خاص کی نہیں بلکہ پورے بھارت کے لوگوں کی زبان ہے۔
اگر آج فراق ؔزندہ ہوتے تو یہ منظر دیکھ کر تڑپ جاتے کہ وہی زبان جس کے لئے انہوں نے زندگی وقف کی تھی، آج اپنے ہی وطن میں اجنبی بنائی جا رہی ہے۔
فراقؔ گورکھپوری کے یومِ پیدائش پر ہم سب کو یہ عہد کرنا ہے کہ ہم اپنی زبان، اپنی تہذیب اور اپنی پہچان کے لئے لڑیں گے۔ اُردو کو بچانا صرف ایک زبان کو بچانا نہیں بلکہ اپنی تاریخ، اپنی تہذیب، اپنی گنگا جمنی تہذیب کو بچانا ہے۔یاد رکھیں! اگر بات اُردو کے وجود پر آئی تو بھارت کی روح بھی زخمی ہوگی۔
ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متوق ہونا ضروری نہیں ہے




