آپریشن سندور تبصرہ : اشوکا پروفیسر علی خان کو بڑی راحت

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے پیر کو نچلی عدالت کو اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر علی خان محمود آباد کے خلاف درج ایف آئی آر کے سلسلے میں ہریانہ ایس آئی ٹی کی طرف سے داخل کی گئی چارج شیٹ پر نوٹس لینے سے روک دیا۔ واضح رہے کہ آپریشن سندور کے حوالے سے سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے پر علی خان محمود آباد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

یہ معاملہ جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس جوائے مالیا باغچی کی بنچ کے سامنے سماعت کے لیے آیا۔ عدالت عظمیٰ نے اسسٹنٹ پروفیسر محمود آباد کے خلاف ان کی سوشل میڈیا پوسٹس پر درج دو ایف آئی آر کی جانچ کے لیے ایس آئی ٹی تشکیل دی تھی۔

ایس آئی ٹی نے بنچ کو بتایا کہ اس نے ان میں سے ایک میں کلوزر رپورٹ داخل کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی 22 اگست کو ایک میں چارج شیٹ داخل کی گئی۔ بنچ نے ٹرائل کورٹ کو کیس میں کسی بھی قسم کا فرد جرم عائد کرنے سے بھی روک دیا۔

محمود آباد کی نمائندگی کرنے والے سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے چارج شیٹ داخل کرنے کو "انتہائی بدقسمتی” قرار دیا۔ سبل نے کہا کہ انہوں نے ان کے خلاف بی این ایس کی اسی دفعہ 152 (غداری) کے تحت مقدمہ درج کیا ہے، جس کے قانونی جواز کو چیلنج کیا جا رہا ہے۔

بنچ نے سبل سے چارج شیٹ کی جانچ کرنے اور مبینہ جرائم کا چارٹ تیار کرنے کو کہا۔ بنچ نے کہا کہ وہ اگلی سماعت پر گذارشات پر غور کرے گی۔

اس سال مئی میں سپریم کورٹ نے پروفیسر کو عبوری ضمانت دے دی تھی لیکن ان کے خلاف جانچ روکنے سے انکار کر دیا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے ان کے خلاف درج ایف آئی آر کی جانچ کے لیے تین رکنی خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) کی تشکیل کی ہدایت دی تھی۔

عدالت عظمیٰ نے مشروط ضمانت دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس سلسلے میں کوئی مضمون، آن لائن پوسٹ نہیں لکھیں گے اور نہ ہی کوئی تقریر کریں گے۔ وہ 22 اپریل کے پہلگام حملے یا آپریشن سندور پر بھی کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔ بنچ نے اپنے حکم میں ان سے اپنا پاسپورٹ جمع کرانے کو کہا تھا۔

ہریانہ پولیس نے اشوکا یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے اسسٹنٹ پروفیسر کو 18 مئی کو گرفتار کیا جب ریاستی خواتین کمیشن نے انہیں آپریشن سندور کی میڈیا کوریج پر تبصرہ کرنے والی فیس بک پوسٹ پر طلب کر لیا تھا۔

کولہا پور تشدد معاملے میں۴۰۰؍افراد پر کیس درج

کیا صدر وزیراعظم کو ہٹا سکتے ہیں؟ اویسی نے آئینی ترمیمی بل پر اٹھائے سوال