بنگلور، 23/ اگست (پریس ریلیز): مرکزی حکومت کی جانب سے بنائے گئے غیر آئینی، غیر جمہوری اور غیر منصفانہ وقف ترمیمی قانون 2025 کے خلاف آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی سرپرستی میں ملک گیر سطح پر ”وقف بچاؤ دستور بچاؤ تحریک“ زور و شور سے جاری ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں احتجاجی پروگرام ہو رہے ہیں، جلسے جلوس، دھرنے اور کانفرنسیں منعقد کی جارہی ہیں اور کرناٹک کی ریاست میں بھی یہ تحریک پوری قوت کے ساتھ جاری ہے۔ اسی سلسلے کے تحت بنگلور کے قدوس صاحب عید گاہ میں ایک عظیم الشان وقف بچاؤ ستور بچاؤکانفرنس برائے خواتین منعقد ہوئی، جس میں ہزاروں خواتین شریک ہوئیں اور یہ واضح پیغام دیا کہ جب تک یہ کالا قانون واپس نہیں لیا جاتا اُس وقت تک یہ تحریک ہرگز نہیں رکے گی۔کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سکریٹری مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی نے کہا کہ اسلام میں وقف کی عظیم اہمیت ہے، یہ امت مسلمہ کا قیمتی سرمایہ اور صدقہ جاریہ ہے، لیکن موجودہ حکومت نے ترمیم کر کے جو نیا وقف قانون بنایا ہے اس کا مقصد اس سرمایہ کو برباد کرنا اور مسلمانوں کے مذہبی و شرعی معاملات میں کھلی مداخلت کرنا ہے۔ یہ قانون نہ صرف شریعت بلکہ دستور ہند کے بنیادی اصولوں کے بھی سراسر خلاف ہے۔ ایسے حالات میں ملت اسلامیہ پر یہ دینی و ملی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ متحد ہو کر اس کے خلاف آواز بلند کرے۔ مولانا نے خواتین کو مخاطب کر کے کہا کہ وہ دین پر ثابت قدم رہیں، اپنی بچیوں کی دینی تربیت کریں اور اوقاف کے تحفظ کی تحریک میں بھرپور حصہ لیں۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن مولانا ابو طالب رحمانی نے کہا کہ بورڈ نے اس قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے، عدالت نے شنوائی مکمل کر کے فیصلہ محفوظ رکھا ہے لیکن فیصلہ آنے سے پہلے ہی حکومت کے میڈیا میں بحث و مباحثے اور بیانات آ رہے ہیں اور امید پورٹنل بنایا گیا ہے، جو کھلی توہین عدالت ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تاثر دینا غلط ہے کہ صرف مسلمانوں کے پاس زیادہ اوقافی جائیدادیں ہیں، حقیقت یہ ہے کہ ہندو اداروں کے پاس مسلمانوں سے زیادہ جائیدادیں موجود ہیں۔ مولانا نے خواتین سے کہا کہ وہ پردے میں رہتے ہوئے حالات سے باخبر رہیں اور وقف کے تحفظ میں عملی کردار ادا کریں۔آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی شعبہ خواتین کی کنوینر محترمہ جلیسہ سلطان یاسین نے کہا کہ موجودہ حکومت 2014 سے مسلمانوں کو مسلسل نشانہ بنا رہی ہے اور وقف قانون کے ذریعہ اب شریعت کو براہِ راست ٹارگیٹ کیا جا رہا ہے۔ آزادی کے بعد ہمارے آبا و اجداد نے اپنی قیمتی جائیدادیں ملت کے لئے وقف کر کے اس امانت کو چھوڑا تھا لیکن آج حکومت انہی امانتوں کو ہڑپنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ قانون ظالمانہ بھی ہے اور دستور کے خلاف بھی، اس کے نافذ ہوتے ہی اوقافی جائیدادیں چھین لی جائیں گی اور مسلمانوں کے حقوق پامال ہوں گے۔ کانفرنس میں مقررین نے کہا کہ وقف بچاؤ دستور بچاؤ تحریک صرف ایک قانونی لڑائی نہیں بلکہ ایک تہذیبی و ایمانی جدوجہد ہے۔ وقف کی جائیدادیں اللہ کے دین کی امانت ہیں، انہیں کسی قیمت پر فروخت یا ضائع نہیں ہونے دیا جائے گا۔ اوقاف کو ہڑپنے کی کوشش دراصل ملت اسلامیہ کی دینی، ملی اور سماجی بنیادوں پر حملہ ہے۔ اس موقع پر کہا گیا کہ مرکزی حکومت مسلمانوں کو کمزور کرنے کے لئے آئے دن نئے قوانین لا رہی ہے، کبھی مدارس کے خلاف اقدامات، کبھی یونیفارم سول کوڈ کی آڑ میں مداخلت اور اب وقف کا سرمایہ نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں ہر مسلمان کو یہ تحریک اپنی ذمہ داری سمجھنی چاہئے۔ کانفرنس میں مقررین نے متفقہ طور پر وقف ترمیمی قانون کو کالا قانون قرار دیتے ہوئے اس کے مکمل خاتمے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اس وقت سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ مسلمان متحد ہو کر اس تحریک میں شامل رہیں۔ اس موقع پر جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر اور بورڈ کے رکن مفتی افتخار احمد قاسمی نے نظامت کی، جبکہ جماعت اسلامی کرناٹک کے امیر ڈاکٹر سعد بلگامی، ملی کونسل کرناٹک کے صدر مولانا نوشاد عالم قاسمی، جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر مولانا عبد الرحیم رشیدی، بورڈ کے رکن عاصم سیٹھ افروز، آل انڈیا ملی کونسل کے معاون جنرل سکریٹری سلیمان خان، جماعت اسلامی کرناٹک کے سکریٹری محمد یوسف کنی سمیت دیگر ذمہ داران شریک ہوئے۔ کانفرنس کی ابتداء میں بورڈ کی شعبہ خواتین کی رکن محترمہ سلمہ شریف نے تمام مہمانوں اور شریک خواتین کا خیر مقدم کیا، جبکہ آخر میں پروگرام کے کنوینر فیاض شریف نے شکریہ ادا کیا۔ مولانا عمرین محفوظ رحمانی کی دعا سے یہ کانفرنس پرجوش ماحول میں اختتام پذیر ہوئی۔



