اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا نئی دہلی کے زیر اہتمام ’’عصری درسگاہوں میں اسلامی علوم پر مطالعہ و تحقیق – منہج و مقصد‘‘ کے موضوع پردورزہ قومی سمینار

علی گڑھ (فکروخبرنیوز/امتیاز قاسمی) ’’عصری درسگاہوں میں اسلامی علوم پر مطالعہ و تحقیق – منہج و مقصد‘‘ کے موضوع پر اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا نئی دہلی کے زیر اہتمام اور سنی دینیات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اشتراک سے دو روزہ قومی سمینار کا افتتاحی پروگرام مؤرخہ 23 اگست 2025 کو آرٹ فیکلٹی کے کانفرنس ہال میں منعقد ہوا، حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ انسان جو بھی عمل کرے، خواہ اس کا تعلق دین سے ہو یا دنیا سے اس کو پوری مہارت، توجہ اور صلاحیت کے ساتھ انجام دیا جائے، اس کو اتقان کہتے ہیں، نیز قران مجید میں کہا کہ جب انسان تک یقینی ذریعے سے کوئی چیز نہیں پہنچے تو اس میں تبین یعنی تحقیق ضروری ہے، قران کی یہ آیت تحقیق کی اہمیت کو واضح کرتی ہے اور یہ حدیث طریقے کار کو بتاتی ہے، آپ نے کہا کہ دنیا کے دوسرے مذاہب کے برخلاف اسلام نے خالص مذہبی اور شرعی معاملات میں بھی تحقیق کا حکم دیا ہے، اس کو حدیث میں اجتہاد سے تعبیر کیا گیا ہے، پھر پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص نیک نیتی کے ساتھ اجتہاد کرے اور صحیح نتیجے تک نہیں پہنچ پائے تو وہ بھی اللہ کے پاس اجر کا مستحق ہے، مولانا رحمانی نے فرمایا کہ دیگر مذاہب میں یہ تصور نہیں ہے اور مذہبی امور میں غور و فکر کے دروازے کو پوری طرح بند کر دیا گیا ہے، عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ علماء نے دینی اور عصری علوم کا بٹوارہ کر دیا ہے، آپ نے  اس کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ صرف تقسیم کار ہے اور یہ فطری ضرورت ہے، پہلے عصری تعلیم کے اداروں میں مختلف علوم کی الگ الگ شعبے نہیں ہوتے تھے، آج الگ الگ فیکلٹیاں ہوتی ہیں، اس کا مقصد علم کی کسی شعبے کو گرانا اور بے وقت قرار دینا نہیں ہے، بلکہ وسائل کے ترقی اور علمی میدان میں ہونے والے پھیلاؤ کے تحت پیدا ہونے والی ضرورت ہے، اس لیے اس کو جدید و قدیم کی تقسیم کا نام نہیں دینا چاہیے، بجائے اس کے کہ ہم علماء سے یہ مطالبہ کریں کہ ان کی صف میں ڈاکٹرز، انجینیئرز اور سائنسدان پیدا ہوں صحیح طریقہ کار یہ ہے کہ علماء اسلامی علوم کے میدان میں ترقی کا راستہ اختیار کریں اور دانشور حضرات اپنے اپنے میدانوں میں امت کو نئی ترقیات اور ایجادات سے مالا مال کریں، مولانا رحمانی نے اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کی علمی، تحقیقی اور تربیتی کاوشوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ علمی دنیا میں جو چند اکیڈمیاں کام کر رہی ہیں، ان میں اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کا اہل علم و تحقیق کے درمیان ایک خاص مقام و اعتبار حاصل ہوچکا ہے، آپ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو علم و فن کے تاج محل اور فکر و نظر کے قطب مینار سے تعبیر کیا، آپ نے فرمایا کہ یہ یونیورسٹی مسلمانانِ ہند کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔

مولانا عتیق احمد بستوی نے افتتاحی خطاب میں کہا کہ آپ حضرات پر یہ بات مخفی نہیں کہ علم و تحقیق دور اول سےاسلام کی شناخت رہی ہے اور ہر دور میں مسلمان علماء اور محققین نے علم و تحقیق کے کارواں کو رواں دواں رکھاہے، اسلامی علوم ہوں یا عصری علوم سب میں بحث و تحقیق کاسلسلہ جاری رہتا ہے، ضرورت ہے کہ موجودہ دور سے ہم آہنگ تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے معیار کو بلند کیا جائے۔؎

 یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر ڈاکٹر محسن علی نے صدارتی خطبہ میں موضوع کی اہمیت اور افادیت کو اجاگر کرتے ہوئے اس طرح کے علمی و تربیتی پروگرام میں ہر طرح کا تعاون دینے کا وعدہ کیا،تعارفی کلمات پیش کرتے ہوئے پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی صاحب کہا کہ سر سید کے تصور کے مطابق علی گڑھ مسلم یونیورسٹی تین چیزوں کا نام ہے :تعلیم، تربیت اور تہذیب، انہوں نے کہا تھا کہ ہمارے ایک ہاتھ میں قرآن مجید ہو، دوسرے ہاتھ میں سائنس ہو اور سر پر لا الہ الا اللہ کا تاج، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے ہمیشہ اپنے بانی کی اس نصیحت کو سامنے رکھنےکی کوشش کی۔

اس پروگرام میں پروفیسر اقتدار محمد خان جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی، پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی سابق ڈی فیکلٹی دینیات اے ایم یو اور پروفیسر حبیب اللہ خان صاحب صدر شعبہ سنی دینیات نے شرکاء سے خطاب کیا. اجلاس کی نظامت ڈاکٹر ندیم اشرف نے کی جبکہ مہمانوں کا شکریہ ڈاکٹر محمد راشد نے ادا کیا. افتتاحی اجلاس کے علاوہ سمینار کی کل چھ علمی نشستیں منعقد ہوئیں، جن میں ہندوستان کی مختلف یونیورسٹیوں کے اساتذہ، پروفیسرز اور ریسرچ اسکالرس نے نہایت وقیع اور معلوماتی تحریریں پیش کیں۔

الشمع اسپورٹس اینڈ ویلفیئر اسوسی ایشن تینگن گنڈی کی طرف سے سرکاری اردو اسکول کے لیے واٹر کولر عطیہ

2028 میں کانگریس دوبارہ آئے گی اقتدار میں ، وزیر اعلیٰ کی دوڑ میں میرا نام نہیں ہوگا شامل : سدارامیا