اترکھنڈ حکومت نے ایک بڑا قدم اٹھاتے ہوئے مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ایکٹ کو ختم کرنے اور اس کی جگہ اترکھنڈ مائناریٹی ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنز ایکٹ نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی کی قیادت میں اتوار کو کابینہ اجلاس میں یہ فیصلہ لیا گیا، جسے منگل سے گیرسین میں شروع ہونے والے اسمبلی اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔
نئے بل کے تحت اب اقلیتی تعلیمی اداروں کا درجہ صرف مسلمانوں تک محدود نہیں رہے گا بلکہ سکھ، عیسائی، جین، بدھ مت اور پارسی برادری کے ادارے بھی اس کا فائدہ اٹھا سکیں گے۔
ذرائع کے مطابق اس ایکٹ کے تحت ایک اتھارٹی تشکیل دی جائے گی جو تمام اقلیتی تعلیمی اداروں کو ایک ہی ریگولیٹری نظام کے تحت لائے گی۔ یہ ملک کی کسی بھی ریاست میں اپنی نوعیت کی پہلی مثال ہوگی۔ اسی کے ساتھ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ایکٹ 2016 اور عربی و فارسی مدارس کی شناخت کے اصول 2019 یکم جولائی 2026 سے ختم ہو جائیں گے، اور موجودہ مدرسہ بورڈ کی سرگرمیاں بند کر دی جائیں گی۔ اس وقت ریاست میں 452 مدارس رجسٹرڈ ہیں۔
حکومت کا کہنا ہے کہ یہ قدم شفافیت، معیارِ تعلیم اور سبھی طبقات کے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے اٹھایا گیا ہے۔ ایک اعلیٰ افسر نے کہا: “یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے جو نہ صرف اقلیتوں کے اداروں کو تسلیم کرنے کے طریقہ کار کو واضح کرے گا بلکہ معیارِ تعلیم کو بھی یقینی بنائے گا۔”
البتہ اس فیصلے پر اپوزیشن نے سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ کانگریس ترجمان آشیِش نوتیال نے کہا:
“یہ صاف طور پر انتخابی چال ہے، بی جے پی ہر وقت ہندو مسلم تفریق کو ہوا دینے کا موقع تلاش کرتی ہے۔”
دوسری طرف اترکھنڈ مدرسہ بورڈ کے چیئرمین مفتی شمعون قاسمی نے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا:
“اب بچے معیاری تعلیم کے ذریعے قومی دھارے میں شامل ہو سکیں گے۔ یہ قدم سبھی طبقات کے لیے فائدہ مند ہے۔”




