آرٹیکل 370 کی منسوخی کی چھٹی برسی پر جموں و کشمیر کی تمام بڑی علاقائی سیاسی جماعتوں نے مرکز کے خلاف بھرپور احتجاجی مظاہرے کیے اور اسے "جمہوریت پر حملہ” اور "آئینی بغاوت” قرار دیا۔ نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی، پیپلز کانفرنس، اپنی پارٹی اور کانگریس کے قائدین نے 5 اگست 2019ء کو ملک کی جدید تاریخ کا "سیاہ ترین دن” قرار دیتے ہوئے ریاستی درجے اور خصوصی آئینی حیثیت کی بحالی کا پُرزور مطالبہ کیا۔
نیشنل کانفرنس کے صدر اور سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے پارٹی ہیڈکوارٹر ’نوائے صبح کمپلیکس‘ میں پارٹی کارکنان اور عوامی نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”۵؍ اگست نہ صرف جموں و کشمیر بلکہ ہندوستانی جمہوریت کے ماتھے پر بدنما داغ ہے۔ اس دن آئین کو کچلا گیا، ریاستی خودمختاری کو روند دیا گیا، اور طاقت کے بل پر ہمیں بے اختیار کر دیا گیا۔“
انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کے عوام نے ان فیصلوں کو پہلے دن سے مسترد کر دیا تھا اور آج بھی انہیں قبول نہیں کیا ہے۔ انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ "نیشنل کانفرنس آئینی حقوق کی بحالی کے لیے ہر سطح پر جدوجہد جاری رکھے گی، اور ایک دن ہم اللہ کے فضل اور عوامی حمایت سے اپنے حقوق واپس حاصل کریں گے۔”
مارچ کو روکا گیا، گیٹ بند کر دیے گئے
نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی، اور کانگریس کے کارکنوں نے سرینگر میں مارچ نکالنے کی کوشش کی لیکن پولیس نے انہیں نوائے صبح کمپلیکس کے اندر ہی روک دیا اور دروازے بند کر دیے۔ کارکنوں نے ’’5 اگست نامنظور‘‘، ’’سیاہ قانون نامنظور‘‘ اور ’’آرٹیکل 370 و 35A بحال کرو‘‘ جیسے نعرے لگائے۔
محبوبہ مفتی: "یہ صرف جموں و کشمیر نہیں، پورے بھارت کے لیے خطرہ ہے”
پی ڈی پی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے X (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا کہ "5 اگست کا دن جمہوریت کے قتل کا دن ہے۔ آئین کو کسی بیرونی طاقت نے نہیں، بلکہ اپنے ہی ہاتھوں پامال کیا گیا۔ جموں و کشمیر کو ایک تجربہ گاہ بنا دیا گیا، جہاں عوام کو بے اختیار، بے زمین اور شناخت سے محروم کیا گیا۔”
انہوں نے خبردار کیا کہ "جو لوگ اسے صرف ایک مقامی مسئلہ سمجھتے ہیں، وہ دراصل ایک بڑے قومی خطرے کو نظرانداز کر رہے ہیں۔”
سجاد لون: "یہ دن جمہوریت کی بے توقیری کی علامت ہے”
پیپلز کانفرنس کے سربراہ سجاد لون نے کہا کہ 5 اگست ہمیشہ ایک "بے رحم یادگار” کے طور پر یاد رکھا جائے گا، جہاں جمہوریت کو جان بوجھ کر کچلا گیا۔ انہوں نے کہا، "ہمیں جو کچھ چھینا گیا ہے، ہم اسے واپس لائیں گے۔ اگر عظمتیں قائم نہیں رہتیں، تو ذلتیں بھی دائمی نہیں ہوتیں۔”
الطاف بخاری: "یہ کوئی احسان نہیں، ہمارا آئینی حق ہے”
اپنی پارٹی کے صدر الطاف بخاری نے اس دن کو "دردناک یاد” قرار دیا اور لکھا کہ "مرکز کی اچانک اور مکمل آئینی تبدیلیوں نے لوگوں کے دلوں پر گہرے زخم چھوڑے ہیں۔ نئی دہلی کو جموں و کشمیر کے عوام کی عزت اور جمہوری حقوق کی بحالی کو یقینی بنانا ہوگا — یہ کوئی خیرات نہیں بلکہ آئینی اور اخلاقی فرض ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ مرکز جموں و کشمیر کے ساتھ ایک جامع، بامعنی اور عوامی اشتراک پر مبنی مکالمہ شروع کرے۔
کانگریس کا مظاہرہ، ہری سنگھ کے مجسمے کے پاس نعرے بازی
جموں میں کانگریس کے کارکنان نے سابق ڈوگرا حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کے مجسمے کے قریب جمع ہو کر 5 اگست کے فیصلے کے خلاف مظاہرہ کیا اور آرٹیکل 370 و 35A کی بحالی کا مطالبہ کیا۔
سپریم کورٹ کی ہدایت اور زمینی حقیقت
واضح رہے کہ 11 دسمبر 2023 کو سپریم کورٹ نے آرٹیکل 370 کی منسوخی کو آئینی قرار دیا تھا، مگر ساتھ ہی مرکز کو ستمبر 2024 تک اسمبلی انتخابات کرانے اور ریاستی درجہ بحال کرنے کی ہدایت بھی دی تھی، جو اب تک مؤخر ہے۔
فاروق عبداللہ: "جب تک بھارت-پاکستان کے تعلقات بہتر نہیں ہوں گے، عسکریت پسندی ختم نہیں ہو سکتی”
پیر کے روز صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ "کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ عسکریت پسندی ختم ہو گئی ہے، جب کہ کلگام میں اب بھی انکاؤنٹر جاری ہے؟” ان کا کہنا تھا کہ خطے میں دیرپا امن کے لیے بھارت اور پاکستان کے تعلقات کی بہتری ناگزیر ہے۔




