مرثیہ مگر کس کا

یاسین محتشم کے سانحہ ارتحال پر سعودی عرب سے فکر وخبر کے رفیق جناب ارشد حسن کاڑلی کے تاثرات

کل دیر رات فون کی گھنٹی بجی۔ ایک شناسا کا فون تھا، مگر ایسا بھی قریبی دوست نہیں تھا کہ بلا ضرورت شدیدہ اس وقت فون آتا۔ یہی سوچتے ہوئے بالاخر اٹھا لیا ۔ اس نے یاسین کی اچانک موت کی اطلاع دی۔‌ ابھی سوشل میڈیا پر یہ خبر نہیں آئ تھی۔ دل میں ایک خیال آیا کہ اللہ کرے یہ خبر غلط ہو۔ بس چند منٹوں میں یہ خبر تقریباً ہر میڈیا پر موجود تھی۔یاسین کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور بہت کچھ لکھا جائے گا۔ مگر میرا موضوع زرا الگ ہے۔ 1977 میں ابھی انجمن اسلامیہ اینگلو اردو ہائی اسکول میں پنجم جماعت میں داخلہ لیے ایک سال بھی مکمل نہیں ہوا تھا, اچانک دوپہر کے وقفہ سے پہلے مخلص و دردمند قوم ہیڈ ماسٹر عثمان حسن جوباپو اپنی فرائض منصبی (ڈیوٹی) انجام دیتے ہوے اپنا وقت مقدور گذار کر اس دارفانی سے کوچ کر گئے۔ان کی جب موت واقع ہوئی تو قوم ایک بڑے صدمے سے دوچار ہوئ۔ پورے شہر بھٹکل پر غم کے بادل چھا گئے۔ ان کی موت پر لکھے گئے پروفیسر رشید کوثر فاروقی صاحب کے اشعار ضرب المثل بن گئے۔یہ قوم وہ ہے جو زندوں کی جان لیتی ہےیہ قوم وہ ہے جو مردوں پہ جان دیتی ہے آج ہمارے پاس ان کی یادگار کے طور پر فنکشن ہال، رابطہ شیلڈ، اور عثمان نگر کی صورت میں رہائشی کالونی ہمارے درمیان موجود ہے۔ مگر ان کے جانے کے ساتھ پیدا ہوئے خلاء کو پر کرنے کی کوشش نہیں کی۔ گئ۔ ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملی اداروں میں تدریسی خدمات انجام دینے والوں کی کمی شدت سے اور مدتوں تک محسوس کی گئی۔اس دور میں جامعہ اسلامیہ میں چند مقامی اساتذہ اور بیرون بھٹکل کے چند اساتذہ تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے۔ سالانہ فارغین کی تعداد بھی بہت کم تھی۔آہستہ آہستہ غیر محسوس انداز میں ہمارے علماء میں تدریس سے وابستہ ہونے کا جذبہ پیدا ہوا اور جامعہ کو مقامی اساتذہ مہیا ہونے لگے۔ جامعہ اسلامیہ کے تدریسی خدمات انجام دینے میں اس وقت غالب اکثریت فارغین جامعہ کی ہے۔ اس کے نتیجے میں جامعہ اسلامیہ کے سالانہ فارغین کی تعداد میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔انجمن حامی‌ مسلمین اور دیگر ملی اداروں میں زنانہ سیکشن میں پھر بھی اساتذہ مل جاتے ہیں البتہ ہمارے لڑکے تعلیم مکمل کرنے کے بعد بہتر مستقبل کے لئے بیرون ملک کا رخ کرتے ہیں۔ نتیجتاً ملی اداروں میں قابل مقامی مرد تدریسی عملے کی محسوس کمی ہے۔ بس چند چراغ ہیں جو ہر لمحہ اپنی لو کو روشن رکھ کر قوم کو علم کے نور سے منور کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ تعلیمی اداروں کے ذمّہ داران نے مقامی افراد کو پچھلے پانچ سالوں میں اسکولوں اور کالجوں میں مقامی قابل افراد کو عہدہ دینے کی اچھی روایت قائم کی ہے۔ مگر اداروں کے علاوہ اگر عوام ان خاموش خدمات انجام دینے والوں کی قدر کرینگے تو مذید افراد تدریس کے مقدس پیشہ سے منسلک ہو کر ہمارے مللی اداروں کی آبیاری کرینگے اور ہماری آنے والی نسلوں کی تعلیم و تربیت کی ذمے داری نبھائیں گے۔یاسین نے اپنی قوم کی خدمت کے لیے کسی رکاوٹ کو رکاوٹ نہیں سمجھا،آخری وقت تک قوم کے لیے فکر مند رہے، انھوں نے اپنی زندگی کی آسائشوں کو ایک بڑے مقصد پر قربان کر دیا اور زندگی کے مطالبوں کو یکسر نظر انداز کر دیا۔پوری یک سوئی اور شرح صدرو انہماک کے ساتھ تعلیم کے کام میں لگے رہے۔یاسین کی موت کو بعض افراد نے بے وقت موت لکھا ہے۔ موت ہمیشہ اپنے وقت پر ہی آتی ہے اور اسے کوئ ٹال نہیں سکتا۔جہاں تک میری یاداشت ہے، آج تک ہمارے شہر میں کسی کی نماز جنازہ ایک بعد ایک دو جمعہ مساجد میں ادا کی گئی ہو۔ یہ سعادت مرحوم کے حصے میں آئ۔موت اس کی ہےکرے جس پہزمانہ افسوساللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہماری قوم کو یاسین کا نعم البدل عطاء فرمائے اور یاسین کی مغفرت فرمائے۔ آمین۔

بھٹکل : لاپتہ ماہی گیروں کی تلاش جاری ، اب تک کوئی سراغ نہیں

جناب یسین محتشم ایک سچا مدرس(وکیل جس نے تدریس کو ترجیح دی)