جموں : جموں میں گزشتہ دنوں مبینہ فرضی تصادم میں ہلاک ہوئے پرویز احمد نامی ایک مسلم نوجوان کے اہل خانہ کے ساتھ جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے پیر کو ملاقات کی اور واقعے کی شفاف اور وقت بند تحقیقات کی یقین دہانی کی۔ عمر عبداللہ نے متوفی کے اہل خانہ کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کی جانب سے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔
وزیر اعلیٰ نے سماجی رابطہ گاہ ایکس پر لکھا: ’’آج جموں میں مرحوم محمد پرویز کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔ ان کے غم میں برابر کا شریک ہوں۔‘‘ اس موقع پر وزیر برائے قبائلی امور جاوید احمد رانا اور وزیر اعلیٰ کے مشیر ناصر اسلم وانی بھی ان کے ہمراہ تھے۔
واقعے کا پس منظر
جموں کے ستواری علاقے میں جمعرات، 24 جولائی کو، پولیس بیان کے مطابق، توی علاقے کا رہنے والا 21سالہ پرویز احمد نامی ایک شہری، منشیات فروشوں کے ساتھ ایک تصادم کے دوران ’کراس فائرنگ‘ میں ہلاک ہو گیا۔
فائرنگ کے سبب ہوئی شہری ہلاکت کے بعد سے علاقے میں کشیدگی پائی جا رہی ہے۔
فرضی تصادم کا الزام
تاہم پرویز احمد کے اہل خانہ نے پولیس بیان کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اسے ’فرضی تصادم‘ قرار دیا۔ اہل خانہ کے مطابق پرویز نہایت ہی شریف اور قانون کی پاسداری کرنے والا ایک نوجوان تھا جس کا کسی بھی غیر قانونی سرگرمی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ گوجر برادری سے تعلق رکھنے والے پرویز احمد کے اہل خانہ سمیت مقامی باشندوں نے ’’فیک انکاؤنٹر‘‘ کے خلاف شدید احتجاج کیا۔
سیاسی رد عمل
’کراس فائرنگ‘ کے دوران ہوئی شہری ہلاکت پر جموں میں شدید احتجاج کیا گیا جبکہ وزیر برائے اقلیتی امور جاوید رانا نے بھی اس کی مذمت کرتے ہوئے ایل جی انتظامیہ سے ’افسران کو جوابدہ‘ بنائے جانے کا مطالبہ کیا۔ ادھر، نیشنل کانفرنس، کانگریس اور بی جے پی سمیت مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی پرویز کے اہل خانہ سے ملاقات کی اور انصاف کا مطالبہ کیا۔
وزیر جاوید احمد رانا نے اپنے بیان میں اس واقعے کو ’’افسر شاہی نظام میں موجود عدم توازن‘‘ کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے جموں کشمیر میں ’ڈیول پاور سسٹم‘ کی شدید مخالفت ک تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’’بعض افسران دوہرے اختیارات کے نظام کا فائدہ اٹھا رہے ہیں اور جموں، سانبہ، کٹھوعہ اور ادھمپور میں اقلیتی طبقے کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، جس کی مکمل تحقیقات ہونی چاہیے۔‘‘
پولیس کارروائی
واقعے کے بعد جموں کشمیر پولیس نے دو پولیس اہلکاروں کو فوری طور پر معطل کیا اور ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم (SIT) تشکیل دی گئی ہے۔




