"یہ حب الوطنی نہیں”: بمبئی ہائی کورٹ کا غزہ نسل کشی کے خلاف احتجاج کی اجازت دینے سے انکار

غزہ پٹی میں جاری اسرائیلی جارحیت اور فلسطینی عوام کی نسل کشی پر عالمی سطح پر شدید غم و غصے کے بیچ بمبئی ہائی کورٹ نے جمعہ کے روز کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کی ایک درخواست کو مسترد کر دیا۔ درخواست میں ممبئی پولیس کی جانب سے احتجاج کی اجازت سے انکار کو چیلنج کیا گیا تھا۔ عدالت نے احتجاج کی "افادیت” پر سوال اٹھاتے ہوئے درخواست گزار پارٹی کو ہندوستانی مسائل پر توجہ دینے کا مشورہ دیا۔
ہائی کورٹ کے جسٹس رویندر گھوگے اور جسٹس گوتم انکھاڑ پر مشتمل بینچ نے سخت تبصرہ کرتے ہوئے کہا: کہ "ہمارے ملک میں پہلے ہی بہت سے مسائل ہیں، ہم اس طرح کی چیزیں نہیں چاہتے۔ آپ سب محدود النظر ہیں، اپنے ملک کے لیے کچھ کریں، فلسطین اور غزہ کے لیے بولنا وطن پرستی نہیں۔”
عدالت نے مزید کہا کہ فلسطینی تنازعہ ہندوستان کی خارجہ پالیسی کا مسئلہ ہے اور اس پر موقف اختیار کرنا حکومت ہند کا دائرہ کار ہے، عوام یا سیاسی جماعتوں کا نہیں۔
سی پی آئی (ایم) کا سخت ردعمل: "عدالت کے ریمارکس غیر آئینی اور تعصب پر مبنی ہیں”
جسٹس رویندر گھوگے نے تبصرہ کیا، ’’جہاں ہمارا اپنا شہری یا عام آدمی متاثر نہیں ہو رہا، آپ وہ کیوں اٹھا رہے ہیں؟ کہیں بھی کوڑا پھینکنا کوئی مسئلہ نہیں ہے؟ کیا جب ہمارے اپنے شہریوں کے سینکڑوں مقدمات زیر سماعت ہیں تو ہمارے پاس ایسے معاملے پر وقت گزارنے کے لیے اتنا وقت ہے؟ کیا یہ ہمارے آئینی مسائل نہیں ہیں؟‘‘ججوں نے نوٹ کیا کہ زیر بحث معاملہ، یعنی ہندوستان کی خارجہ پالیسی کا موقف، وزارت خارجہ کے دائرہ کار میں آتا ہے۔جسٹس گھوگے نے کہا، ’’فلسطین یا اسرائیل کے حق میں کسی جانب کھڑا ہونا حکومت ہند کا کام ہے۔ آپ ایسا ماحول کیوں بنانا چاہتے ہیں جہاں ملک کو کسی جانب کھڑا ہونے پر مجبور کیا جائے؟ آپ نہیں جانتے کہ اس سے کتنا غبار اٹھ سکتا ہے۔ جو پارٹی آپ کی نمائندگی کرتی ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ واضح ہے کہ آپ ملک کے خارجہ امور پر اس کے ممکنہ اثرات کو نہیں سمجھتے۔‘‘عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ ممبئی پولیس نے پہلے ہی آل انڈیا پیس اینڈ سولیڈیریٹی فاؤنڈیشن کی۱۷؍ جون کی درخواست مسترد کر دی تھی جس میں آزاد میدان میں احتجاج کی اجازت مانگی گئی تھی۔

ہندوستانی کمیونسٹ پارٹی (مارکسسٹ) کی پولٹ بیورو نے پارٹی کی اپیل مسترد کرتے وقت بمبئی ہائی کورٹ کے تبصروں کی سخت مذمت کی ہے۔سی پی آئی (ایم) نے کہا، عدالت کے مشاہدات گہرے طور پر غیر آئینی ہیں اور ایک پریشان کن سیاسی تعصب کا مظہر ہیں۔ بینچ نے سی پی آئی (ایم) کی حب الوطنی پر بھی سوال اٹھائے، سیاسی جماعتوں کے آئینی حقوق اور فلسطینی اسباب کے ساتھ ہندوستان کی طویل تاریخ یکجہتی دونوں کو نظر انداز کرتے ہوئے۔یہ نہ صرف ناجائز ہے، بلکہ قومی مفاد کے نام پر اختلاف رائے کو دبانے کی ایک چھپی ہوئی کوشش بھی ہے۔پارٹی نے مزید کہا کہ ایسے تبصرے اسرائیلی افعال پر عالمی غم و غصے کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے اداروں اور بین الاقوامی عدالت انصاف کی جانب سے اختیار کیے گئے مضبوط موقف کو بھی مسترد کرتے ہیں۔پارٹی نے نوٹ کیا، عدالت کا موقف غزہ پر عالمی اخلاقی اجماع کے بالکل برعکس ہے۔ یہ اس وقت پریشان کن ہے جب ایک آئینی عدالت ایسی حقائق کو نظر انداز کرنے کا انتخاب کرے۔پولٹ بیورو نے شہریوں سے اپیل کی کہ وہ ایسی خطرناک مثالوں کا مقابلہ کریں، اور تمام آزادی اور جمہوریت پسند لوگوں سے اپیل ہے کہ اس قابل مذمت رویے کو بلا شرکت غیرے مسترد کریں۔ یکجہتی کو خاموش کرانا وطن پروری نہیں ہے، یہ ظلم میں شمولیت ہے۔یہ تبصرہ اس وقت سامنے آئے ہیں جب غزہ میں اسرائیلی افعال پر عالمی غم و غصہ بڑھ رہا ہے، جہاں جبری فاقہ کشی کے نتیجے میں خوراک، صاف پانی اور دوائیوں کے تقریباً مکمل فقدان کے درمیان سیکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

سینئر وکیل پرشانت بھوشن : عدالتیں حکومت کی بولی بول رہی ہیں
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے بھی عدالت کے اس فیصلے کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے دو اہم ٹویٹس میں کہا:
"آئینی عدالتیں اب ان مظلوموں کے حق میں احتجاج یا پٹیشن پر ناراضگی ظاہر کرتی ہیں جو نسل کشی کا شکار ہیں (جیسے فلسطینی اور روہنگیا)، اگر ہماری حکومت ان ظالموں کی حمایت کرتی ہے۔ جج حضرات یہ بھول رہے ہیں کہ ان کا کام بنیادی حقوق کا تحفظ ہے، نہ کہ حکومت کی پالیسی کو دہرانا۔”

بندوق کی نوک پر بیٹے کو بنگلہ دیش دھکیل دیا گیا، مغربی بنگال کے مزدور کے اہلِ خانہ کا سنگین الزام

سنبھل تشدد معاملہ : پانچ ماہ بعد شاہی جامع مسجد کمیٹی کے صدر ظفر علی کو ضمانت