گروگرام میں آسام کانسٹیبل کا بیٹا ‘غیر قانونی بنگلہ دیشی’ کہہ کر گرفتار، خاندان نے دکھائے تمام شناختی دستاویزات

ہریانہ کے گروگرام میں نو بنگالی نژاد مسلمانوں کو ’غیر قانونی بنگلہ دیشی تارکین وطن‘ ہونے کے شبہ میں پولیس نے حراست میں لے لیا ہے، جن میں ایک آسام پولیس کانسٹیبل کا بیٹا بھی شامل ہے۔ متاثرہ خاندانوں نے اس کاروائی کو امتیازی سلوک اور مذہبی بنیاد پر نشانہ بنانے کی کوشش قرار دیا ہے۔
آسام انڈسٹریل سیکیورٹی فورس میں تعینات سپاہی سنت علی نے بتایا کہ ان کا 23 سالہ بیٹا اشرف الاسلام، جو بارپیٹا ضلع کے بربلا گاؤں کا رہائشی ہے، حال ہی میں کالج امتحانات مکمل کرنے کے بعد روزگار کی تلاش میں 11 جولائی کو ہریانہ گیا تھا۔ 13 جولائی کو اس نے گروگرام کے سیکٹر 10-اے میں ایک تعمیراتی مقام پر کام شروع کیا، مگر چند ہی دن بعد 21 جولائی کو پولیس نے اشرف اور آٹھ دیگر بنگالی نژاد مسلمانوں کو حراست میں لے لیا۔
شناختی دستاویزات کے باوجود الزام برقرار
سنت علی کے مطابق اشرف کے پاس ووٹر شناختی کارڈ، آدھار کارڈ، اسکول کے سرٹیفکیٹس، اور پین کارڈ جیسے ضروری دستاویزات موجود تھے، مگر پولیس نے ان تمام کو نظر انداز کرتے ہوئے ان پر ’غیر قانونی بنگلہ دیشی‘ ہونے کا الزام لگایا۔
انہوں نے مزید کہا، ’’ہم نے مزید ثبوت کے طور پر میری سروس آئی ڈی اور دیگر فیملی شناختی کاغذات بھی بھجوائے ہیں۔ ہریانہ پولیس کے سینئر افسران سے بات ہوئی ہے، امید ہے کہ جلد رہا کیا جائے گا۔‘‘
خاندان سے رابطہ منقطع، واٹس ایپ پر آخری پیغام
اشرف الاسلام کے بھائی، رکب الاسلام نے بتایا کہ اتوار کی صبح اشرف نے واٹس ایپ پر اطلاع دی تھی کہ پولیس شناختی کاغذات کی جانچ کے لیے آئی ہے۔ ’’ہم نے فوری طور پر تمام دستاویزات واٹس ایپ پر بھیج دیے، مگر تھوڑی دیر بعد اشرف کا فون بند ہو گیا۔ اس کے بعد پیر تک اس کی کوئی خبر نہ مل سکی۔‘‘
پولیس کا موقف اور وزارت داخلہ کی ہدایت
گروگرام ویسٹ کے اسسٹنٹ کمشنر آف پولیس کے مطابق یہ کاروائی وزارت داخلہ کی اُس ہدایت کے تحت کی گئی ہے جس میں بنگلہ دیش اور میانمار کے ممکنہ غیر قانونی تارکین وطن کی شناخت اور تصدیق کا حکم دیا گیا ہے۔
افسر نے کہا، ’’ہم فی الحال دستاویزات کی جانچ کر رہے ہیں۔ حتمی فیصلہ اس کے بعد ہوگا۔‘‘
اس سے پہلے بھی آسام کے شہریوں کو نشانہ بنایا گیا
یاد رہے کہ اس سے قبل 13 اور 14 جولائی کو بھی آسام کے 26 بنگالی بولنے والے افراد کو گروگرام میں حراست میں لیا گیا تھا، جنہیں بعد میں دستاویزات کی تصدیق کے بعد رہا کر دیا گیا۔ اس رویے پر آسام میں شدید ناراضگی دیکھی جا رہی ہے۔
طلبہ تنظیم نے وزرائے اعلیٰ کو خط لکھا
آسام کی اقلیتی طلبہ تنظیم "آل آسام مائناریٹیز اسٹوڈنٹس یونین (AAMSU)” نے آسام اور ہریانہ کے وزرائے اعلیٰ کو خط لکھ کر اس معاملے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ تنظیم کے مطابق ہریانہ میں گروگرام سمیت مختلف علاقوں میں لوئر آسام سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کو جھوٹے الزامات کے تحت پکڑا جا رہا ہے، جو سراسر ناانصافی ہے۔
پس منظر: شناخت اور شہریت کا بحران؟
یہ واقعہ ایسے وقت پیش آیا ہے جب پاہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد ملک کی مختلف بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں میں بنگالی بولنے والے مزدوروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہیں اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔
بدقسمتی سے بعض واقعات میں ہندوستانی شہریوں کو بنگلہ دیش ڈیپورٹ کیے جانے کی اطلاعات بھی ہیں، جس نے شہریت اور شناخت کے مسئلے کو ایک بار پھر قومی سطح پر بحث کا موضوع بنا دیا ہے۔

کرناٹک کے ساحلی علاقوں کے مارکیٹوں میں دیگر ریاستوں سے پہنچ رہی تازہ مچھلیاں  

امید ہے دھنکھر کے جانشین نائب صدر کے عہدے کے ساتھ صحیح انصاف کریں گے، جموں کشمیر وزیراعلی عمر عبداللہ