میرا روڈ کے مدرسہ عثمان میں مفتی اشفاق قاضی کا اہم خطاب، رسولﷺ کی معاشی حکمت عملی کو اختیار کرنے پر زور
ممبئی: اتوار کی شب بعد نماز عشاء میرا روڈ کے کاشی میرا ویسٹرن پارک میں قائم مدرسہ عثمان میں فیملی فرسٹ گائیڈنس سینٹر کے زیر اہتمام ’علماء اور معیشت‘ کے عنوان پر ایک اہم پروگرام کا انعقاد ہوا، جس میں مرکز کے بانی و ڈائریکٹر اور جامع مسجد بمبئی کے صدر مفتی اشفاق قاضی نے بصیرت افروز خطاب کیا۔انہوں نے علماء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ دور میں افراط و تفریط دونوں سے بچتے ہوئے عدل کا راستہ اختیار کرنا ناگزیر ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ایک طرف صرف مسجد و مدرسہ کی محدود تنخواہ پر قناعت کرتے ہوئے معاشی نظام کو سمجھنے سے گریز کیا جاتا ہے، تو دوسری طرف بعض لوگ کاروبار میں اتنے مگن ہو جاتے ہیں کہ دینی خدمات کو ترک کر دیتے ہیں، جو دونوں صورتوں میں قابلِ تشویش ہے۔مفتی اشفاق قاضی نے زور دے کر کہا کہ معیشت کو سمجھنا علماء کے لیے تقویٰ کے منافی نہیں، بلکہ وقت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ فیملی فرسٹ سینٹر نے ’گائیڈ می ٹو دی مارکیٹ‘کے نام سے ایک کورس تیار کیا ہے جس کا عربی ترجمہ ’دلّونی علی السوق‘ہے۔ انہوں نے مجلس میں سوال بھی رکھا کہ یہ جملہ سب سے پہلے کس نے کہا تھا اور کس سے کہا تھا، جس کا صحیح جواب دینے والے کو انعام دینے کا اعلان کیا گیا۔جہاں حاضرین مجلس میں موجود کچھ علماء نے جواب بھی دئیے ۔ اور کہا کہ یہ جملہ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف ؓنے حضرت سعد بن ربیع سے کہا تھا مواخاۃ کے درمیان۔ یہ جملہ اسلامی معیشت میں خود انحصاری، عزتِ نفس، اور تجارت کی اہمیت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔اس کے بعد حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ بازار گئے، کاروبار شروع کیا، اور تھوڑے ہی دنوں میں وہ خوشحال ہو گئے۔مفتی اشفاق قاضی نے رسول اللہ ﷺ کی اقتصادی حکمت عملی پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ جس طرح آپ ﷺ نے قیادت، سیاست اور عدل و انصاف کا مثالی نمونہ پیش کیا، اسی طرح معاشی نظام میں بھی آپ ﷺ کی حکمت عملی قابلِ تقلید ہے۔ انہوں نے مدینہ منورہ کے مواخات کے نظام، تاجروں کی تربیت، اور بزنس کے اخلاقی اصولوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ سیرتِ نبوی میں معیشت کے ہر پہلو کے لیے رہنمائی موجود ہے۔انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ دنیا کے تین بڑے ارب پتی افرادمیں ایلن مسک، جیف بیزوس، اور بل گیٹس شامل ہیں دس بڑے میں کسی بھی کسی مسلمان کا نام نہیں ہے، حالانکہ عرب دنیا میں دولت کی فراوانی ہے۔ مگر یہ سرمایہ کاروباری ترقی کے بجائے نمود و نمائش پر صرف ہو رہا ہے، جسے درست کرنا ضروری ہے۔پروگرام میں بڑی تعداد میں علمائے کرام، حفاظ، ائمہ و موذنین شریک ہوئے۔ مفتی صاحب نے قرآن و حدیث کی روشنی میں علماء کو معیشت کی طرف سنجیدہ توجہ دینے کی تلقین کی اور کہا کہ دنیا دین کے تابع ہے، دین کے خلاف نہیں۔ انہوں نے شرعی اصولوں کے مطابق کاروبار کو فروغ دینے اور انسانی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی ضرورت پر زور دیا۔ممبئی: اتوار کی شب بعد نماز عشاء میرا روڈ کے کاشی میرا ویسٹرن پارک میں قائم مدرسہ عثمان میں فیملی فرسٹ گائیڈنس سینٹر کے زیر اہتمام ’علماء اور معیشت‘ کے عنوان پر ایک اہم پروگرام کا انعقاد ہوا، جس میں مرکز کے بانی و ڈائریکٹر اور جامع مسجد بمبئی کے صدر مفتی اشفاق قاضی نے بصیرت افروز خطاب کیا۔انہوں نے علماء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ دور میں افراط و تفریط دونوں سے بچتے ہوئے عدل کا راستہ اختیار کرنا ناگزیر ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ایک طرف صرف مسجد و مدرسہ کی محدود تنخواہ پر قناعت کرتے ہوئے معاشی نظام کو سمجھنے سے گریز کیا جاتا ہے، تو دوسری طرف بعض لوگ کاروبار میں اتنے مگن ہو جاتے ہیں کہ دینی خدمات کو ترک کر دیتے ہیں، جو دونوں صورتوں میں قابلِ تشویش ہے۔مفتی اشفاق قاضی نے زور دے کر کہا کہ معیشت کو سمجھنا علماء کے لیے تقویٰ کے منافی نہیں، بلکہ وقت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ فیملی فرسٹ سینٹر نے ’گائیڈ می ٹو دی مارکیٹ‘کے نام سے ایک کورس تیار کیا ہے جس کا عربی ترجمہ ’دلّونی علی السوق‘ہے۔ انہوں نے مجلس میں سوال بھی رکھا کہ یہ جملہ سب سے پہلے کس نے کہا تھا اور کس سے کہا تھا، جس کا صحیح جواب دینے والے کو انعام دینے کا اعلان کیا گیا۔جہاں حاضرین مجلس میں موجود کچھ علماء نے جواب بھی دئیے ۔ اور کہا کہ یہ جملہ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف ؓنے حضرت سعد بن ربیع سے کہا تھا مواخاۃ کے درمیان۔ یہ جملہ اسلامی معیشت میں خود انحصاری، عزتِ نفس، اور تجارت کی اہمیت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔اس کے بعد حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ بازار گئے، کاروبار شروع کیا، اور تھوڑے ہی دنوں میں وہ خوشحال ہو گئے۔مفتی اشفاق قاضی نے رسول اللہ ﷺ کی اقتصادی حکمت عملی پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ جس طرح آپ ﷺ نے قیادت، سیاست اور عدل و انصاف کا مثالی نمونہ پیش کیا، اسی طرح معاشی نظام میں بھی آپ ﷺ کی حکمت عملی قابلِ تقلید ہے۔ انہوں نے مدینہ منورہ کے مواخات کے نظام، تاجروں کی تربیت، اور بزنس کے اخلاقی اصولوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ سیرتِ نبوی میں معیشت کے ہر پہلو کے لیے رہنمائی موجود ہے۔انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ دنیا کے تین بڑے ارب پتی افرادمیں ایلن مسک، جیف بیزوس، اور بل گیٹس شامل ہیں دس بڑے میں کسی بھی کسی مسلمان کا نام نہیں ہے، حالانکہ عرب دنیا میں دولت کی فراوانی ہے۔ مگر یہ سرمایہ کاروباری ترقی کے بجائے نمود و نمائش پر صرف ہو رہا ہے، جسے درست کرنا ضروری ہے۔پروگرام میں بڑی تعداد میں علمائے کرام، حفاظ، ائمہ و موذنین شریک ہوئے۔ مفتی صاحب نے قرآن و حدیث کی روشنی میں علماء کو معیشت کی طرف سنجیدہ توجہ دینے کی تلقین کی اور کہا کہ دنیا دین کے تابع ہے، دین کے خلاف نہیں۔ انہوں نے شرعی اصولوں کے مطابق کاروبار کو فروغ دینے اور انسانی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی ضرورت پر زور دیا۔




