پونے، 8 جولائی: مہاراشٹر کے ضلع پونے کے مختلف دیہی علاقوں میں مسلمانوں کے خلاف جاری بائیکاٹ اور نفرت انگیز مہم کے نتیجے میں کئی مسلم خاندانوں کو اپنے گھروں اور کاروبار کو چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ اس بات کا انکشاف دو سرکردہ انسانی حقوق کی تنظیموں — پیپلز یونین فار سول لبرٹیز (PUCL) اور ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (APCR) — نے اپنی ایک مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ میں کیا ہے۔
تنظیموں نے 30 جون کو پونے کے ڈویژنل کمشنر کو ایک تفصیلی خط روانہ کر کے اس سنگین صورتِ حال پر فوری توجہ دینے اور ضروری کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ پاؤد، پیراگٹ، کولوَن، سواترواڈی اور ملسی تعلقہ کے دیگر دیہات میں مسلمانوں کو نشانہ بنا کر ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا گیا ہے جہاں ان کے لیے پرامن زندگی گزارنا مشکل ہو گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ صورتحال 2 مئی کو اُس وقت پیدا ہوئی جب پاؤد گاؤں میں ایک مسلم لڑکے پر ہندو دیوی اننا پورنا کی مورتی کی مبینہ بے حرمتی کا الزام لگا۔ مقامی باشندوں نے لڑکے کو تشدد کا نشانہ بنایا اور بعد ازاں پولیس کے حوالے کر دیا، جس نے فوری طور پر مقدمہ درج کرتے ہوئے اسے گرفتار کر لیا۔
واقعے کے بعد مقامی سیاسی جماعتوں، بشمول بھارتیہ جنتا پارٹی، نے شدید احتجاج کیا۔ اگرچہ ابتدائی طور پر پولیس نے حالات کو قابو میں رکھا اور چند سماجی کارکنان نے ماحول کو بہتر بنانے کی کوشش کی، تاہم جلد ہی گاؤں میں ایسی تختیاں اور بورڈز نصب کیے گئے جن پر درج تھا کہ “مسلمانوں کا داخلہ ممنوع ہے”۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کو کام دینے، ان سے کاروباری لین دین کرنے یا انہیں کرایہ پر مکان دینے سے کھلے عام روکا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ کباڑ کا کاروبار کرنے والے کئی مسلم خاندانوں کو اپنا روزگار بند کر کے دیہات چھوڑنے پر مجبور کیا گیا ہے۔
خط میں یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ مقامی پولیس کی “غیر اعلانیہ حمایت” سے مسلمانوں کے شناختی کارڈ چیک کیے جا رہے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ صرف مقامی مسلمان ہی دیہات میں رہ سکیں، باہر سے کوئی نہ آ سکے۔
مزید یہ کہ کچھ ہندو باشندوں نے تنظیموں کو بتایا کہ انہیں سختی سے کہا گیا ہے کہ وہ کسی مسلمان کی مدد نہ کریں۔ اس ماحول نے نہ صرف مسلمانوں بلکہ مجموعی طور پر دیہی معاشرے کے امن و امان کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ گزشتہ تین ماہ کے دوران پونے شہر میں بھی مسلمانوں کے بائیکاٹ کی مہم دیکھی گئی ہے، جہاں سوشل میڈیا پر کھلے عام اپیلیں کی جا رہی ہیں کہ مسلمان تاجروں سے خریداری نہ کی جائے اور نہ ہی ان کی خدمات حاصل کی جائیں۔ پولیس کو ان پیغامات سے باخبر کیا جا چکا ہے، مگر تاحال مؤثر کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے یہ سلسلہ جاری ہے۔
تنظیموں کا مطالبہ:
پیپلز یونین فار سول لبرٹیز اور ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس نے اپنے خط میں مطالبہ کیا ہے کہ:
فوری طور پر حالات کا جائزہ لینے کے لیے اعلیٰ سطحی تحقیقات کی جائیں۔
تمام نفرت انگیز بورڈز اور بینرز کو ہٹایا جائے۔
مسلمانوں کو ڈرانے دھمکانے والے عناصر کی نشاندہی کر کے ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔
پولیس کو ہدایت دی جائے کہ وہ نفرت پھیلانے والے سوشل میڈیا پیغامات کی تفتیش کرے اور ان کے ذمہ داروں کو قانون کے دائرے میں لایا جائے۔
بائیکاٹ سے متاثرہ مسلم خاندانوں کو فوری تحفظ اور تعاون فراہم کیا جائے تاکہ وہ دوبارہ معمول کی زندگی گزار سکیں۔




